آٹوموبائل پالیسی(ڈاکٹر مفتاح اسماعیل)

جب 2013ء میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت اقتدارمیں آئی تو محسوس ہورہا تھاکہ پاکستان کی آٹو موبائل مارکیٹ میں بہتری کی ضرورت ہے ۔ زیادہ تر صارفین کا خیال تھا کہ اُن کے سامنے گاڑی خریدنے کے آپشنز بہت محدود ہیںاور محدود آپشنز میں دستیاب گاڑیوں کے وہ ماڈل اُنہیں دیگر ممالک میں انہی گاڑیوں کے ماڈلز کے مقابلے میں زیادہ مہنگے داموں خریدنا پڑتے ہیں۔

حکومت کا موقف تھا کہ چونکہ کاروں کے زیادہ تر حصے، خاص طور پر اہم حصے، جیسا کہ انجن اور ٹرانسمیشن، مقامی طور پر تیار نہیں ہوتے، اُنہیں درآمد کرنا پڑتا ہے ، اس لیے گاڑیوں کی قیمت میں اضافہ ہوجاتا ہے ۔ نیز موجودہ کمپنیاںنئے ماڈلز متعارف کرانے، زیادہ پرزہ جات مقامی طور پر تیار کرنے یا پاکستان میں ٹیکنالوجی کی منتقلی میں دلچسپی نہیں رکھتیں۔

کارساز کمپنیاںیہ جواز پیش کرتی تھیں کہ پاکستان کاروں کی اتنی چھوٹی مارکیٹ ہے کہ وہ ان کے اہم حصے مقامی طور پر نہیں بنا سکتیں، اور پھر کارسازوں پر عائد ٹیکسز اور درآمدی محصولات کی وجہ سے کاروںکی قیمت بہت زیادہ ہے ۔ کارساز کمپنیاں پاکستان میں بڑی تعداد میں کاروںکی درآمد پر بھی شاکی تھیں ۔ دوسری طرف حکومت کوشکایت تھی کہ مقامی طور پر تیار ہونے والی کاریںبک ہونے کے بہت دیر بعد فراہم کی جاتی ہیں، اس لیے گاہک درآمد شدہ کاریں خریدنے کا حق رکھتا ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ ٹیکس جمع کرنے والا ادارہ درآمد شدہ کاروں پر ڈیوٹیز حاصل کرنا سہل سمجھتا تھا۔

اس پس ِ منظر میں کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے اُس وقت کے وفاقی وزیر، خواجہ آصف کی قیادت میں ایک کمیٹی تشکیل دی ۔ اس کا مقصد نئی آٹو پالیسی کی سفارشات مرتب کرنا تھا۔ اس کمیٹی نے مجھے بورڈ آف انویسٹمنٹ کاچیئرمین مقرر کردیا، جبکہ ایف بی آراور انجینئرنگ ڈویلپمنٹ بورڈ کے چیئرمین، اور انڈسٹریز، فنانس اور بورڈ آف انویسٹمنٹ کے سیکرٹریز اس کے ارکان تھے ۔

آپ تصور کرسکتے ہیں کہ جب کمیٹی پالیسی سازی کی بابت فیصلہ کررہی تھی تو انڈسٹری کے اندر ایک توانا لابی موجود تھی ،لیکن خواجہ آصف کی قیادت کی بدولت ہم ایک واضح اور کامیاب پالیسی وضع کرنے میںکامیاب رہے ۔ ایک مرتبہ جب ہم سب وسیع تر اصلاحات پر متفق ہوگئے تو اُنھوں نے مجھے ذمہ داری سونپی کہ میں تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر اس کے ٹیکنیکل امور کو طے کروں اور اس میں موجود مشکلات کا حل نکالوں۔ تاہم اُنھوںنے مجھے باور کرا دیا کہ وہ تمام تر سیاسی دبائو خود برداشت کریں گے۔ اُن کا اصرار تھا کہ ہم ہر صورت ملک اور اس کے شہریوں کا مفاد مقدم رکھیں۔ جب بھی ہماری بحث کسی مرحلے پر جمود کا شکار ہوتی تو خواجہ صاحب ہمارے لیے کوئی راہ نکال لیتے ۔ مسٹر طارق باجوہ، جو اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے موجود ہ گورنر ہیں، بھی اُس وقت اُس کمیٹی کے رکن تھے ۔ اُنھوں نے مجھے اور دیگر ممبران کو اپنے موقف سے قائل کیا کہ ہمیں نئی کارساز کمپنیوں کو پاکستانی مارکیٹ میں قدم رکھنے کے لیے یکساں مواقع فراہم کرنے چاہئیں۔ اُن کی دلیل یہ تھی کہ موجودہ کار سازکمپنیوںکے پاس ڈیلر شپ کا ایک ملک گیر نیٹ ورک، فروخت کا نظام اور فیکٹریاںموجود ہیں۔ اس لیے اُن کی کاروںکی لاگت کسی بھی نئے آنے والے کی کاروں سے کم ہے ۔ ایک پولیٹیکل اکانومسٹ ہونے کے ناتے میںاس بات کی سمجھ رکھتا ہوں کہ جب ریگولیٹری ایجنسیوں کا معاملہ ہو توصنعت کے مقابلے میں صارف کا اثر بہت کم ہوتا ہے ۔ صرف پاکستان میں ہی نہیں ، پوری دنیا میں ایسا ہی ہوتا ہے ۔ایک صارف، جو کئی سال بعد کوئی ایک کار خریدتا ہے ، کے پاس ایسا کوئی محرک ، یا وسائل نہیں ہوتے کہ وہ اسلام آباد جائے ، میٹنگز میں شرکت کرے اور ریگولیٹر کو قائل کرنے کی کوشش کرے کہ وہ صارفین کے مفاد کا زیادہ خیال رکھے ۔ دوسری طرف صنعت کے پاس پالیسی سازوں پر اثر انداز ہونے کے لیے وسائل اور لابی موجود ہوتی ہے۔ (اس کے لیے امریکہ کے معاملات کی مثال ذہن میں رکھیں۔ جب تک فضائی کرایوں کو ریگولیٹ کیا جاتا رہا، اُن کے نرخ بلند رہے ، لیکن جب امریکہ میں فضائی کرایوں کو ڈی ریگولیٹ کردیا گیا تو اُن میں خاطر خواہ کمی آگئی۔ اس کا مطلب ہے کہ وہاں ریگولیٹرز فضائی کمپنیوں کے مفاد کو تحفظ دے رہے تھے)چنانچہ ہم سوچ سکتے ہیں کہ ہمارے ریگولیٹرز بھی کارسازوںکو قیمت کم کرنے ، نئے ماڈلز متعارف کرانے یا کاروں کے زیادہ تر حصے مقامی طور پر تیار کرنے پر قائل نہیں کریں گے۔ اس کے بجائے ہم مارکیٹ پر اعتماد رکھتے تھے۔ ہمیں یقین تھا کہ ہم ایک ایسی پالیسی وضع کرسکتے ہیں جو نئے کارسازوں کو پاکستانی مارکیٹ میں کھینچ لائے گی۔ اس سے قائم ہونے والی مسابقت کی فضا میں ہم گاڑیوں کے بہتر ماڈلز اور قیمت میں کمی دیکھیں گے ۔ مزید یہ کہ اگر کار سازوں کو مناسب سہولتیں فراہم کی جائیں تو وہ گاڑیوں کے زیادہ سے زیادہ حصے مقامی طور پر تیار کرکے لاگت میں مزید کمی لاسکتے ہیں۔چنانچہ گاڑیوںکی قیمت میں کمی، صارفین کی تعداد میں اضافہ ، متوسط طبقے کی خوشحالی کے نتیجے میں پاکستان میں آٹو مارکیٹ کا حجم بڑھ جائے گا۔ اس سے کارساز کمپنیاں اچھا بزنس کرسکیں گی ، اور صارفین کو بہتر ماڈل کم قیمت میں دستیاب ہوں گے (یہ 2016 ء کا ذکر ہے، اور اس وقت ہم پر امید تھے)۔ خوش قسمتی سے ہماری پالیسی کامیاب رہی۔ جیسے ہی ہم نے اس پالیسی کا اعلان کیا تو کوریا کی دو بڑی کارساز کمپنیوں، ہنڈائی اور کیا (Kia) نے پاکستان میں سرمایہ کاری کا اعلان کردیا۔ جلد ہی فرانس کی رینالٹ ، یواے ای کے ال فاتیم (Al Futaim) گروپ اور ایک مقامی کمپنی، گندھارا موٹرز نے مل کر پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کا اعلان کردیا۔ تاہم اُن کا معاہدہ ناکام ہوگیا۔ چنانچہ رینالٹ اور ال فاتیم نے اپنے طور پر پاکستان میں سرمایہ لگانے کا فیصلہ کیا۔ اُنھوںنے کارسازی کا پلانٹ لگانے کے لیے زمین خریدلی۔ گندھارا بھی اس پیش رفت میں پیچھے نہیں تھی۔ اس نے نسان(Nissan) کے ساتھ ایک ڈیل کی اور پاکستان میں ڈاٹسن کاریں لانے کے عمل کی شروعات کردی۔ ہماری حکومت ختم ہونے سے چند ماہ پہلے والکس ویگن نے پاکستان کی ایک مقامی کمپنی کے ساتھ مل کر کمرشل گاڑیاں اسمبل کرنے کا اعلان کردیا۔ اس تمام پیش رفت کا مطلب تھا کہ پاکستانی کار انڈسٹری میں اب کئی ایک کھلاڑی ہوں گے ، اور ان کے درمیان کڑی مسابقت کے نتیجے میں صارفین کو نئے اور بہتر ماڈلز اور بہترقیمت میسر آئے گی۔ گاڑیوں کی فیول ایوریج اور تحفظ میں بہتری آئے گی، اور جب ہم ایک نئی گاڑی خریدنے جائیں گے تو اصل قیمت سے زیادہ ادا کرنے کی بجائے ہم ڈیلروں سے ڈسکائونٹ لینے کی پوزیشن میں ہوں گے۔ اب نئی حکومت اس بات کا کریڈٹ لینے کی کوشش کررہی ہے کہ اس کی وجہ سے تمام کارساز کمپنیاں پاکستان میں آرہی ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان تمام کمپنیوںنے پاکستان آنے کا اعلان مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے دوران کیا تھا اور سرمایہ کاری کے عمل کا آغاز بھی کردیا تھا۔ اس کی وجہ میاں نواز شریف حکومت کی منظورکردہ آٹو پالیسی تھی ۔ لیکن میرے نزدیک اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس کا کریڈٹ کون لیتا ہے۔ نئی کارساز کمپنیوںکا پاکستان میں سرمایہ کاری کرنا، اور صارفین کو گاڑی خریدنے کے بہتر آپشنز دستیاب آنا اصل بات ہے ۔ ہماری حکومت کے سامنے ایک مشکل فیصلہ تھا، جس کا تعلق پاک سوزوکی موٹرز سے تھا۔ سوزوکی ایک شاندار کمپنی ہے اورپاکستان میں بہت عمدہ بزنس کررہی ہے ۔ اب وہ پاکستان میں ایک نیا پلانٹ لگانا چاہتی تھی۔ اس نے ہم سے درخواست کی تھی کہ اُسے نیا پلانٹ لگانے کے لیے ویسی ہی مراعات دی جائیں جس کا ہم نے نئی کمپنیوں کے لیے اعلان کیا تھا۔ ہم نے اس سے انکار کردیا ، کیونکہ ایسا کرنا ہماری پالیسی ، اور اُس وعدے کی خلاف ورزی ہوتا جو ہم نے نئی آنے والی کمپنیوںکے ساتھ کیا تھا۔ ہمارے پاس ایسا کرنے کی دلیل موجود تھی۔ نئے کارساز نئے اور بہتر ماڈل متعارف کراتے، تو پہلے سے موجود کارساز کمپنیوںکو بھی اپنا معیار بڑھانا پڑتا۔(رینالٹ کے ایگزیکٹوز نے ہمیں یقین دلایا تھاکہ کراچی کی سڑکوں پر چلنے والی کاروں کا معیار وہی ہوگا جو پیرس میں چل رہی ہیں)۔

مجھے امید ہے کہ سوزوکی پاکستان میں مزید سرمایہ کاری کرے گی اور حکومت موجودہ پالیسی سے انحراف نہیں کرے گی۔ اس صورت میں ، میں نئی حکومت کو پورا کریڈٹ دیتے ہوئے خوشی محسوس کروں گا۔ میں یہ دعویٰ نہیں کروں گا، اگرچہ ہمارے پا س اس کا جواز موجود ہے کہ اس کا سہرا بھی خواجہ آصف کی سربراہی میں کمیٹی کی بنائی گئی کامیاب آٹو پالیسی کے سر ہے۔

(صاحب مضمون سابق وفاقی وزیر برائے مالیاتی امور ہیں)

(بشکریہ جنگ،لاہور)

یہ بھی پڑھیں

شہری اراضی کا ریکارڈ کمپوٹرائیشن، بورڈ آف ریونیو کے شعبہ پلس کا قابل فخر کارنامہ، جائیدادوں پر قبضے، جھوٹی درخواستیں، تنازعہ جات کا خاتمہ ہوجائے گا۔

شہری اراضی کا ریکارڈ کمپوٹرائیشن، بورڈ آف ریونیو کے شعبہ پلس کا قابل فخر کارنامہ، …