سرکاری ڈاکو! (عامر محمود بٹ)

کاش کے میں نگران حکومت کے وزیر اعلی محسن نقوی صاحب کو یہ بتا سکتا ، سمجھا سکتا اور دیکھا سکتا کہ آپ جب بھی ایل ڈی اے تشریف لائے ہیں صرف اور صرف ون ونڈو تک محدود رہے ہیں۔ کاش آپ ایل ڈی اے کے دیگر شعبہ جات کو چیک کرتے وہاں پر موجود خامیوں کا نوٹس لیتے، ُان غیرقانونی پریکٹس کا خاتمہ کرواتے جس سے عوام الناس کی زندگی تنگ پڑچکی ہے اور وہ اس دکھاوے کے نظام سے تنگ آچکے ہیں۔ ڈی جی ایل ڈی اے محمد علی رنداوھا نے اس حوالے سے کبھی کوئی سدِباب نہ کیا ہے اور نہ ہی اس طرف کوئی توجہ دی ہے اور وہ ایل ڈی اے کا شعبہ ہاؤسنگ کا سٹاف اور افسران جو کہ دماغی طور پر یہ سمجھ کر آفس تشریف لاتے ہیں کہ ایل ڈی اے میں موجود تمام اراضی مالکان کی پراپرٹی، ملکیت اور پلاٹوں کے وہ مکمل طور پر حصہ دار ہیں اور مالک مختار بھی ہیں اسی سوچ کے بعد وہ تمام ایس او پیز مرتب کیے جاچکے ہیں جن کے استعمال سے عوام الناس کی ایک بڑی تعداد زہنی کوفت اور جسمانی ازیت سے بھی دوچار ہوکر مجبوراً اپنی ہی جائیداد کے ریکارڈ کے این او سی کے حصول کیلئے ان کو بڑے پیمانے پر رشوت دینے پر مجبور بھی ہے۔ ایسے ایسے تاخیری حربے استعمال کیے جاتے ہیں اور ایسے ایسے اعتراضات لگائے جاتے ہیں کہ سائلین خدا کی پناہ مانگتے رہتے ہیں۔
سب سے پہلے اگر شعبہ ہاؤسنگ کے سٹاف، اسسٹنٹ ڈائریکٹر، ڈپٹی ڈائریکٹرز اور ڈائریکٹرز سطح کے افسران کا میڈیکل کروایا جائے تو آپ کو ان میں سے وہ آفیسر اور سٹاف واضح طور پر دیکھائی دیں گے جن کی دماغی حالت انتہائی خراب اور لاغر ہے اور وہ زہنی طور پر اپنا غم، غصہ اور بچپن سے لیکر جوانی تک کی تمام محرومیوں اور کمی کوتاہیوں کا حساب ایل ڈی اے کے پراپرٹی مالکان سے لینے میں مصروف ہیں۔ اور یہ ایسے خودکش بمبار سے بھی زیادہ خطرناک ہوچکے ہیں کہ ان کی زبان اور ان کے قلم سے کوئی بھی شخص محفوظ نہ ہے سب سے پہلے ایسے چند عناصر کی فوری طور پر ٹرانسفر ہونی چاہئے جو کہ اس اتھارٹی ، اس کے سربراہ کی جانب سے کیے جانے والے تمام اچھے اقدامات کی نفی کروانے کے ذمہ دار ہیں بلکہ عوام الناس میں لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے خلاف دماغی طور پر ایک کمپین چلوانے میں بھی مصروف ہیں تاکہ لوگ یہاں پر آکر اس سسٹم اور اس میں بیٹھے تمام افسران کو گالیاں بھی دیں اور ان کو کوسنے پر مجبور ہوجائیں ان چند افسران کی بدولت ایل ڈی اے کے شعبہ ہاؤسنگ کے ایڈیشنل ڈی جی سے لیکر اس کے نیچے کے تمام افسران کی کارگردگی اور میرٹ پر کام کرنے کی پالیسی بھی داؤ پر لگ چکی ہے۔ ان افسران میں سرفہرست نام ڈپٹی ڈائریکٹر ہاؤسنگ فائیو غلام عباس کا آتا ہے یہ ایل ڈی اے میں آنیوالی عوام الناس کو ناصرف ازیت دینے بلکہ اپنے سٹاف کے ذریعے بھاری رشوت وصولی تک چین سے نہیں بیٹھتا ہے۔ دوسری بات ہے باقی کہ وہ تمام افسران جو یہ سمجھتے ہیں کہ این او سی بغیر پیسے جاری نہیں کرنے اور اس ایس او پیز پر عمل پیرا ہیں ان کےخلاف فوری ریفرنس بنوا کر محکمہ انسداد رشوت ستانی میں بھجوائیں جائیں جو کہ اس وقت بھی اندھا دھند کرپشن، رشوت وصولی اور بدعنوانی میں مصروف عمل ہیں ان کو کسی بھی حکومت سے کوئی غرض نہیں ان کو صرف اور صرف رشوت وصولی سے غرض ہے جو پوری کرنے میں مصروف ہیں اس کے علاوہ وہ تمام ملازمین جو کہ جان بوجھ کر تاخیری حربوں سے فائل کو سست روی کا شکار کرتے ہیں اور کئی کئی دن فائل کو اس لیے روک کر رکھتے ہیں اور ٹائم پر رپورٹ نہیں کرتے ہیں کہ ان کو بطور رشوت پیسے نہیں دئیے گئے ہوتے ہیں۔ ہاں! جن سائلین کی جانب سے مجبوری کی حالت میں پیسے دئیے جا چکے ہوں گے ان کے کام لازم بروقت کروائے جاتے ہیں اور جتنے بھی بروقت کام کروائے گئے ہیں محکمہ ہاؤسنگ کے سٹاف کی جانب سے اگر ان کا آڈٹ کروایا جائے انسپکشن کروائی جائے اور سائلین سے حلف لیکر پوچھا جائے تو وہ آپ کو آگاہی لازم دیں گے کہ اپنے جائز کام کیلئے کیسے کیسے اور کن کن جگہ پر اس کوسٹاف نے بے دردی سے لوٹا، اور جو اشہتار، جو کمپین اور جو نیوز وہ ڈی جی ایل ڈی اے کی پڑھ کر ایل ڈی اے میں آئے تھے۔ اس کے بالکل الٹ ان کے ساتھ سلوک برتا گیا ایل ڈی اے کے شعبہ ہاؤسنگ میں موجود افسران وملازمین اس حد تک فرعونیت میں مبتلا ہوچکے ہیں کہ ان کا قبلہ درست کرنے کیلئے انتہائی سخت اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ بصورت دیگر ایل ڈی اے کے شعبہ ہاؤسنگ برانچ اور ضلع لاہور کی عوام آمنے سامنے ہوں گی وہ دن دور نہیں ہے جب یہ پریشر آؤٹ آف کنٹرول ہوجائے گا اور عوام الناس اور ایل ڈی اے کے شعبہ ہاؤسنگ افسران وملازمین کے گریبان ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہوں گے اور یہ دست گریباں ہوچکے ہوں گے

یہ بھی پڑھیں

"اندھے ، بہرے اور گونگے افسران”(عامر محمود بٹ )

لوکل گورنمنٹ میں غیرقانونی تعمیرات کا کاروبار سب سے زیادہ فروغ پارہا ہے ، ایک …