"اندھے ، بہرے اور گونگے افسران”(عامر محمود بٹ )

لوکل گورنمنٹ میں غیرقانونی تعمیرات کا کاروبار سب سے زیادہ فروغ پارہا ہے ، ایک ایک کمرشل تعمیر پر پانچ لاکھ سے لیکر تیس لاکھ روپے تک رشوت وصولی اب عام بات ہے ۔ کرپشن کی روک تھام اور غیرقانونی تعمیرات کے خلاف ایکشن لینے والے خود حصہ دار بن چکے ہیں ، لوکل گورنمنٹ کے شعبہ پلاننگ میں جو کاروائی ، ایکشن اور نوٹس لیا جاتا ہے وہ اس بات پر نہیں ہوتا کہ غیرقانونی تعمیر مکمل کیوں ہوئی ہے اس سے گورنمنٹ کے سرکاری خزانہ کا ریونیو چوری کیا گیا یا پھر یہ خلاف قانون یا خلاف ضابطہ تعمیر کی گئی ہے ،،،، بلکہ اس بات کا غصہ ہوتا ہے کہ ہمیں نظر انداز کیوں کیا گیا ہے جیسے ہی وہ بلڈنگ انسپکٹر ، ڈرافٹس مین ، اور فیلڈ میں پیسے اکٹھے کرنے والا نائب قاصد ، صاحب بہادر کو دوران انکوائری نوٹس لینے پر قائل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو وہی انکوائری آفسیر پورے دل وجان اور پوری قوت سے ُاس کرپٹ ملازم کو بچانے کیلئے لوکل گورنمنٹ کےسیکرٹری پنجاب تک اور صوبائی وزیر بلدیات تک کے سینئر انتظامی افسران کو بھی حقائق سے برعکس رپورٹ پیش کرنے پر ضرور دے رہا ہوتاہے ، یہ گزشتہ کئی سالوں سے سلسلہ جاری ہے ، بلڈنگ انسپکٹرز صاحبان کو معلوم ہے کہ کون سے انکوائری آفسیر کو کتنے پیسے دینے ہیں اور انکوائری کوسست روی کا شکار کیسے بنانا ہے یہ پوری توجہ سے اپنی حکمت عملی تیار کرنے میں مصروف ہیں ، واہگہ زون کے ارسلان جمیل کے خلاف 31 غیرقانونی تعمیرات کیسے سرخ فیتے کی نذر ہوگئیں، سمن آباد ٹاؤن کے تنویر احمد کی 47 پراپرٹیز کی انکوائری کیوں التواء میں ڈال دی گئیں جس کی وجہ سے سمن آباد ٹاؤن کے بعد داتا گنج بخش ٹاؤن میں اضافی چارج ملنے پر رہی سہی کسر بھی نکال دی اور پچاس مزید تعمیرات مکمل کروادی، ایڈمنسٹریٹر ایم سی ایل رافعہ حیدر کو اقبال ٹاؤن میں جس زیڈ او آر نے غیرقانونی تعمیرات کی رپورٹ مرتب کرکے دی وہ مکمل طور پر جعلی اور بوگس تھی میرے خیال سے اقبال ٹاؤن کی حدود کا مکمل اور جامع سروے کسی نے آج تک کیا ہی نہیں ، سینکڑوں تعمیرات خلاف نقشہ تعمیر جاری وساری ہے ، نشتر ٹاؤن کی حدود میں ایسے ایسے رہائشی نقشے پاس کیے گئے کہ موقع پر جب کے کمرشل تعمیرات کی بھرمار کردی گئی ، ڈی ایچ اے کی حدود میں جانے والی یونین کونسلز میں بھی تعمیرات کروانے کی آڑ میں نشتر ٹاؤن میں کون بڑے پیمانے پر رشوت وصولی کررہا ہے یہ تمام تر اطلاعات کے باوجود خاموشی اختیار کی جاچکی ہے ، جن ملازمین کو صوبائی وزیر بلدیات نے کرپشن کی بنیاد پر نکالا تھا اُن کو دوبارہ نشتر ٹاؤن کیسے اور کس کے کہنے پر لگایا گیا ہے ، واہگہ زون میں کھدائی سے گرنے والی ایک بلڈنگ میں سروئیر کو تو معطل کردیا گیا مگر اس میں شامل اصل کردار تک تاحال کوئی رسائی نہیں کی جاسکی ، کون سے زیڈ او پی نے پانچ لاکھ روپے رشوت وصول کی اور کس بلڈنگ انسپکٹر کے ذریعے کی گئی یہ سورس رپورٹ تاحال انکوائری رپورٹ کا حصہ نہیں بنی تاہم ڈی جی انسپکشن اینڈ مانیٹرنگ پنجاب سردار نصیر اس بات کیلئے پرعزم دیکھائی دیتے ہیں کہ وہ اصل ملزمان کو بھی اس انکوائری میں بےنقاب کریں گے اور کسی سے ایک فیصد بھی رعایت نہیں برتی جائے گی ، صوبائی وزیر بلدیات عامر میر کو اس ساری صورتحال کا نوٹس لیکر ایسے کرپٹ عناصر کےخلاف سخت اقدام واضح طور لینے ہوں گے اور میں ایسے کتنے ہی ملازمین کو منع کر چکا ہوں جو صوبائی وزیر بلدیات عامر میر کی نگران حکومت جانے کی جیسے جیسے زور زور سے باتیں کرتے ہیں اور جوش خطابت میں ، سیاسی حکومت کے قائم ہونے کے بعد کی برکات ظاہر کرنے کے دعوے کرتے ہیں تو الیکشن ہونے میں بھی تاخیر نمایاں طور پر دیکھائی دینے لگ جاتی ہے اور الیکشن کی ڈیٹ مزید آگےبڑھ جاتی ہے اس لیے سب کو مشورہ دیتا ہوں کہ صوبائی وزیر بلدیات عامر میر اور وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی کی نگران حکومت جانے کی دعائیں مانگنے والوں کی دعا سے ان کی حکومت کی ٹائمنگ میں مزید اضافہ ہوا جاتا ہے اس لیے ذرا احتیاط کیجئے۔

یہ بھی پڑھیں

شہری اراضی کا ریکارڈ کمپوٹرائیشن، بورڈ آف ریونیو کے شعبہ پلس کا قابل فخر کارنامہ، جائیدادوں پر قبضے، جھوٹی درخواستیں، تنازعہ جات کا خاتمہ ہوجائے گا۔

شہری اراضی کا ریکارڈ کمپوٹرائیشن، بورڈ آف ریونیو کے شعبہ پلس کا قابل فخر کارنامہ، …