لاک ڈاؤن میں ذندگی (محمد شفیق چوہدری)

قوم ایک عجیب مخمصے کا شکار ہے، کہ کریں تو کیا کریں ہر آنے والا دن مشکلات میں اضافہ کیے جا رہاہے۔۔ ہر طر ف خو ف نے پنجے گاڑدیے ہیں۔کورونا وایرس نے زندگی کے پہیے کو جام کر دیا ہے ۔ اس دوران وفاق اور اس کی تمام اکایاں ایک صفےب پرمنتج نظرنہی آرہیں۔ وفاق کی سمت مشرق اور صوبوں کی مغرب۔ حکومت اور اپوزیشن بھی ایک دوسرے کےساتھپپنجہ آزمای میں باہم مصروف عمل ہیں۔ سیاسی داوو پیچ بھی ساتھ ساتھ آزماے جا رہے ہیں۔

یوں لگتا ہے کہ میدان سجنے کو ہے۔ کون جیتا ہے تیری ذلف کے سر ہونے تک۔ لاک ڈاون کے مضمرات سے کیسے نکلیں شاید اس کے لیے کسی کے پاس فرصت نہہں۔ ایک دن کی چھٹی قومی خزانے کوتقریباً بیاسی ارب میںپڑھتی ہے۔آج تقریباً پچیس دن ہونے کو ہیں ۔ لوگ بے روزگار ہورہے ہیں۔ بھوک ،ننگ اورافلاس بنگھڑے ڈال رہی ہے۔سرمایہ دار نے اپنے دروازے بند کر دیے ہیں۔بگڑتی صورت حال مزید گمبیر ہوتی جارہی ہے۔ ایک طرف کھڈا ہے اور دوسری طرف کھای ۔ آگے بڑھتے ہیں تومو ت کے منڈلاتے ساے ،پیچھے مڑ کر دیکھیں تو بھوک رقص کناں۔ اس دوران کتنے گھروں کے چولہے بجھ گے۔ کتنے بچے بھوک کی انگڑایاںلیتے سو ے۔ شاید کسی کو بھی معلوم نہ ہو۔

انڈسٹری کے دروازے بند ہو رہے ہیں لوگوں کی جابزچھین رہی ہیں۔ کل رات ایک دوست کی کال موصول ہوی۔ پوچھنے پر بتایا کہ نوکری چلی گی۔ آدھے سے ذیادہ سٹاف کو فارغ کر دیا گیا۔ حیرانگی اس بات پر نہی کہ فارغ کر دیا گیا بلکہ اس بات پر ہے کہ پورے معاملے کا کوی ریگولیٹر نہی ۔ ریاست صرف سرمایہ دار کے مفادات کی محافظ نہی بلکہ ہر اس شخص کی ہے جس کی محنت کے بل بوتے پر محلات تعمیر کیے جاتے ہیں۔ اور مشکل پڑھنے پر بغیر کچھ لیے دیےگھرکا دروازہ دکھلا دیے جاتا ہے۔ہم اداروں کی مضبوطی کی بات صرف اس وقت کرتے ہیں جب ان کی ضرورت پڑھتی ہے۔ عام طور پر ان کی صلاحیت بڑھانے میں کسیکوکوی دلچسپی نہی ہوتی۔لیبر قوانین اور ان پر عملدرآمد کروانے اور ان پر عمل کروانے میں سب سے ذیادہ متحرک کردار لیبر ڈیپارٹمینٹ کانظر آنا چاہیے۔

مزدور سے لے کر مینجر تک تمام ملازمین جو کسی بھی ادارے میں کام کرتے ہوں ان کے مفادات کا تہحفظ ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ ان کے مفادات کے تحفظ سے ہی مستقل کے معمار کی دستیابی ہو گی۔ ورنہ محنت کش کے ہاں محنت کش ہی پیدا ہوتا رہے گا۔اس ساری صورت حال میں سب سے ذیادہ پریشان انشورنس کمپنیاں کو ہونا چاہیے ۔لیکنآپ کوان کاکو ی کردارنظر نہی آرہا ہو گا۔ اس کی وجہ شاید قوانین پر عملدرآمد نہ ہونا یا پھر سرے سے قوانین کا موجود نہ ہونا۔ دونوں صورتوں میں مفادات میں تصادم یعنی کنفلکٹ آف انٹرسٹ کےحامل قوانین پر عملدرآمد نہ ہونا بنیادی اسباب ہیں۔ ہمیں اس بات کا خیال رکھنا ہو گا کہ خوشحال ہو گی تو روشن پاکستا ن ہو گا۔

مغر ب اس نتیجہ پر غالباً ستر کی دھای میں ہی پہنچ گیا تھا جب اس نے محنت کش کو سفید پوش کے برابر حقوق عطا کر دیے۔ تنخواہ کے فرق کو کم سے کم کیا اور محنت کش کے بنیادی مفادات کا تحفظ یعقینی بنایا۔ ہفتہ میں دہ دن کی چھٹی اور کام کی صورت میں اضافی تنخواہ کا حقدار ٹھہرا۔پیداواری لاگت میں اضافہ ہو۱ ۔ سرمایہ دار کے منافہ پر کاری ضرب پڑھی ۔امیر کو امیر ہونےسے روکا ، غریب کو غربت کی چکی سے نکالا۔یہی بنیادی وجہ ہے کہ آج ہمارا ہر نوجوان مغر ب کی جانب کھچا چلا جا رہا ہے۔ بنیادی مفادات کے تحفظ کے لیے قوانین میں مناسب تبدیلی اور ان پر مرحلہ وار عمل درآمد یعقینی بنانا ہو گا بصورت دیگر غربت کی لکیر اور گہری ہوتی چلی جاے گی اور غریب کا ہاتھ گریبان سے ذیادہ گردن کے قریب ہوتا چلا جاے گا۔

مہمد شفیق چوہدری ۔ @ShafiqsiddiqchFor feedback twitter

یہ بھی پڑھیں

شہری اراضی کا ریکارڈ کمپوٹرائیشن، بورڈ آف ریونیو کے شعبہ پلس کا قابل فخر کارنامہ، جائیدادوں پر قبضے، جھوٹی درخواستیں، تنازعہ جات کا خاتمہ ہوجائے گا۔

شہری اراضی کا ریکارڈ کمپوٹرائیشن، بورڈ آف ریونیو کے شعبہ پلس کا قابل فخر کارنامہ، …