’نہیں چاہتا جو پیپلزپارٹی اور (ن) لیگ کے ساتھ ہوا وہ تحریک انصاف کے ساتھ ہو’ خواجہ سعد رفیق کی قومی اسمبلی میں دھواں دار تقریر کے اہم نکات پڑھیے

اسلام آباد (میڈیا 92 نیوز آن لائن ) مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے جمہوری نظام کے خطرے کے خدشے کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس ملک میں جمہوری نظام کو نقصان پہنچا تو ذمہ دار حکومت ہوگی لیکن میں نہیں چاہتا کہ جو پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ہوا وہ تحریک انصاف کے ساتھ ہو۔

قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر اسد قیصر کی صدارت میں ہوا، جہاں حکومت اور اپوزیشن اراکین نے بجٹ بحث کے علاوہ ایک دوسرے پر تنقید کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔

ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ مجھے علم ہے کہ پروڈکشن آرڈر جاری کرنے پر آپ پر کتنا دباؤ رہتا ہے، تاہم میرے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے پر آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔

خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ یہ درست ہے کہ میثاق معیشت کی پیشکش کی گئی لیکن گریبان پکڑ کر یا بندوق رکھ کر میثاق نہیں کروائے جاتے، میثاق کا آغاز جمہوریت سے کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ میثاق معیشت تو یاد رہ گیا میثاق جمہوریت کیوں یاد نہیں رہا، پہلے اسے بڑھانا چاہیے پھر میثاق معیشت پر بات ہونی چاہیے، تاہم یہ نہیں ہوسکتا کہ غیر ضروری رویے، آمرانہ اقدام، انتقامی کارروائیوں کی جائیں اور ڈھٹائی سے کہیں کہ یہ سب ہم کروا رہے ہیں حالانکہ جو آپ کے ہاتھ میں ہے وہ ہمیں بھی پتہ ہے جو ہمارے ہاتھ میں تھا وہ بھی ہمیں پتہ تھا۔

سابق وزیر نے کہا کہ اس ملک میں جمہوری حکومتوں کے ہاتھ میں جو ہوتا ہے وہ ہمیں بھی پتہ ہے، ہم 5 سال حکومت کرکے آئے ہیں پھر کون سا این آر او؟، کیسا این آر او؟، این آر او دینا منتخب وزرا اعظم کا کام ہی نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کہتے ہیں کہ سلیکٹڈ کا لفظ استعمال نہ کرو، یا تو خود کو سلیکٹڈ مان لیں تو پھر ہم یہ مان سکتے ہیں کہ آپ این آر او دے سکتے ہیں کیونکہ یہاں منتخب وزیر اعظم این آر او دینے کی پوزیشن نہیں رکھتا۔

اپنی بات جار رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ میثاق سے کوئی پیچھے نہیں ہٹ رہا لیکن میثاق کرنے، معاہدے کرنے یا ملک چلانے کے لیے سیاسی درجہ حرارت نیچے لانا پڑتا ہے، یہ نہیں ہوتا کہ گریبان میں ہاتھ ڈال کر دباؤ ڈال کر ضمانتیں منسوخ کروائیں یہ جو ہورہا ہے وہ آپ کو بھی پتہ ہے اور ہمیں بھی پتہ ہے، اللہ آپ کو اس آفت سے محفوظ رکھے لیکن آپ بچ نہیں سکتے کیونکہ ہم نہیں بچے، پیپلز پارٹی والے نہیں بچے، ایم کیو ایم والے نہیں بچے تو آپ کیسے بچیں گے۔

مسلم لیگ (ن) کے رہنما کا کہنا تھا کہ ایک، دو مرتبہ ایسا ہوا کہ میرے بھائی کو جیل میں دل کا دورہ پڑا تو میرا دل ہوا کہ میں ان لوگوں کو بددعا دوں لیکن میں ڈر گیا۔

قومی اسمبلی میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم نے کیا چوری کیا، کیا ڈاکا مارا، ہر بندہ چور نہیں ہوتا، ہمیں معلوم ہے کس بات کا رگڑا لگ رہا ہے یہ رگڑا تقریروں کا ہے۔

بجٹ پر تنقید کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس بجٹ نے تنخواہ دار طبقے کی چیخیں نکلوا دیں، ریئل اسٹیٹ سیکٹر کی تباہی کے تابوت میں یہ بجٹ آخری کیل ثابت ہوگا جبکہ انکم ٹیکس افسران کو چھاپوں کا اختیار دینے سے کرپشن کا نیا سیلاب آئے گا۔

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ لوگوں کے گھروں میں گھسنے کے اختیارات کو پوری قوم بھگتے گی، اسی طرح 12 لاکھ ٹیکس کی چھوٹ کو 4 لاکھ پر لانا ظالمانہ اقدام ہے، جو حکومت 4 ہزار ارب کا ہدف پورا نہیں کرسکی وہ ساڑھے 5 ہزار ارب روپے کا ہدف کیسے پورا کرے گی۔

اظہار خیال میں ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی نے پاکستان کی تاریخ میں خسارے کا سب سے بڑا بجٹ پیش کیا ہے، تعلیم اور صحت کا شعبہ اس حکومت کے منشور میں شامل تھا لیکن تعلیم کے بجٹ میں 20 ارب روپے کی کمی کی ہے جبکہ صحت کے شعبے کا بجٹ بھی کم کیا ہے۔

قرضوں پر انہوں نے کہا کہ ہمیں کہا جاتا ہے کہ 5 سال میں ساڑھے 10 ہزار ارب کے قرضے لیے جبکہ آپ کی حکومت نے 10 ماہ میں 5 ہزار ارب کے قرضے لے لیے۔

انہوں نے کہا کہ بجلی، گیس، اشیا خورونوش ہر چیز مہنگی ہوگئی ہے، ہمیں جنہیں یہ چور کہتے ہیں ان کے دور میں جی ڈی پی 5.8 فیصد تھی جبکہ ان فرشتوں کے دور میں 3 فیصد تک آگیا ہے۔

ریلوے پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ریلوے میں آئے روز حادثات ہورہے ہیں، میرے دور میں بھی حادثات ہوتے تھے اور ایک وزیر براہ راست اس کا ذمہ دار نہیں ہوتا لیکن اس وقت میرا استعفیٰ مانگا جاتا تھا لیکن میں نے آپ کے استعفیٰ کا مطالبہ نہیں کیا۔

وفاقی وزیر شیخ رشید پر تنقید کرتے ہوئے سعد رفیق نے کہا کہ عارف علوی اور عمران خان کو خوش کرنے کے لیے آپ نے ٹرینیں چلائیں، آپ نے 10 نئی ٹرین چلائیں جس میں 4 خسارے میں ہیں، چلتی ٹرینوں کی بوگیاں اتار کر ہمارے چھوڑے گئے نئے انجن سے جوڑ کر ٹرین چلا دی۔

اس موقع پر انہوں نے دعویٰ کیا کہ ایم ایل ون پر معاہدے کا کہا گیا لیکن آپ نے کوئی معاہدہ نہیں کیا، اگر آپ نے معاہدہ کیا ہے تو میں استعفیٰ دے دوں گا اور سیاست چھوڑ کر جاؤں گا، آپ ایک ایم او یو کرکے آئے ہیں جو کوئی کام نہیں، ریلوے کا کباڑہ کردیا ہے۔

خواجہ سعد رفیق نے اپنے خطاب میں سیاست پر بھی بات کی اور کہا کہ نیب کا کالا قانون ملک کی معیشت کو کھوکھلا کر رہا ہے، وہاں صرف سیاست دان قید نہیں بلکہ سیکڑوں لوگ موجود ہیں جو ہماری جان کو رو رہے ہیں انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے نیب قوانین میں ترمیم نہیں کرکے نالائقی کی، ہمیں ترمیم کرنی چاہیئے تھی جبکہ یہی نالائقی تحریک انصاف بھی کر رہی ہے جو ان کے گلے پڑے گی۔

اسمبلی میں مزید بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جس پر شک ہو اسے پکڑ کر جیل میں ڈال دیا جاتا ہے، خوف کا عالم یہ ہے کہ ہمیں رگڑا لگانے کے شوق میں سرکاری ملازم ڈر گئے ہیں اور کوئی دستخط کرنے کو تیار نہیں ہے، کوئی کسی منصوبے کو آگے بڑھانے کے لیے تیار نہیں ہے۔

خواجہ سعد رفیق کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم آفس میں ایک احتساب سیل قائل ہے، یہ ویسا ہی سیل ہے جو مسلم لیگ (ن) نے اپنے دور میں قائم کرکے غلط کام کیا تھا، یہ غلط اقدام تھا، جس کی مذمت کرتا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ آپ احتساب کرتے اگر غیرجانبدار حکومت ہوتے، جس حکومت کا سربراہ کہے کہ میں نہیں چھوڑوں گا، جس کے وزرا کہیں ہم گرفتاریاں کرواتے ہیں وہ حکومت اعتماد کھو دیتی ہے، ایسی حکومت احتساب نہیں کرسکتی۔

اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ’میں نہیں چھوڑوں گا‘ کا شور مچا کر مخالفت اور مزاحمت ختم ہوگی تو یہ غلط فہمی ہے، ڈنڈوں، دھمکیوں، گرفتاریوں، انتقام سے ملک نہیں چلایا جاسکتا، اس لیے ایسے اقدام سے بچیں۔

حکومت پر تنقید کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ آپ سمجھتے ہیں کہ ایسے پاکستان آگے بڑھ جائے گا اور بدسلوکی یہ سب دفن کردے گی تو پیپلزپارٹی کو ہم زور لگا کر دفن نہیں کرسکے، ضیاالحق کے دور میں پیپلزپارٹی نظر نہیں آتی تھی لیکن جب بینظیر بھٹو آئیں تو اور کوئی نظر نہیں آتا تھا صرف پیپلزپارٹی آتی تھی، لہٰذا سیاسی حقیقت کو گھلا گھونٹ کے دبایا نہیں جاسکتا۔

انہوں نے کہا کہ ہم جیل میں پڑے ہیں لیکن اگلا سال آپ کا سال ہے، شاید آپ کو اس کی آواز نہیں آرہی، تاہم ہم ایسا نہیں چاہتے۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بطور سیاسی رہنما دکھ ہوتا ہے جب ہم اپنی جماعتوں اور قیادت کے دفاع کے لیے جھوٹ کی حد تک چلے جاتے ہیں، ہم نے اپنے قائدین کو اوتار بنا لیا ہے وہ انسان ہیں، وہ غلطیاں کرتے ہیں، تاہم اگر ریاست میں یہی حالات رہے تو یہ جمہوری نظام خطرے میں ہے، جو سمجھتا ہے ایسا نہیں ہے تو وہ اپنی غلط فہمی نکالے، زیادہ وقت نہیں ہے، یہاں 5 سال آرام سے نہیں نکلتے۔

خواجہ سعد رفیق کا کہنا تھا کہ نہیں چاہتا کہ جو پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ہوا وہ آپ کے ساتھ ہو لیکن اسے کمزوری نہ سمجھے اور سوچیں اور ایسا راستہ بنائیں کہ ہم سب آگے بڑھیں۔

قبل ازیں اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے کہا کہ اچھا وقت چل رہا تھا، پیپلزپارٹی، مسلم لیگ (ن) ایک دوسرے کو چور کہہ کر ووٹ لیتی تھیں، جو جیت جاتا تھا مولانا فضل الرحمٰن ان کے ساتھ مل کر حکومت بنا لیتے تھے۔

فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ پھر عمران خان آئے، جس کے بعد سے (ن) لیگ کو سمجھ نہیں آرہی اور وہ ایوان میں ہوتی ہے تو ’ش‘ لیگ ہوتی ہے، لاہور پہنچتی ہے تو ’م‘ ہوجاتی ہے جبکہ کراچی پہنچتی ہے تو ’بی‘ ہوجاتی ہے، ہمیں سمجھ نہیں آرہا کہ یہ کیا ہے اور کیا نہیں۔

یہ بھی پڑھیں

پالتو کتے نے مالک کے گھر سے دہائیوں پرانا بم دریافت کرلیا

فلوریڈا: امریکا میں ایک پالتو کتے نے گھر کے آنگن میں مٹی کھودتے وقت دہائیوں پرانا …