COVID-19 اور ہماری ذمہ داریاں

تحریر: محمد معظم علی

COVID-19 ایک ایسی اصطلاح ہے جو کہ موجودہ حالات میں زبان زدِ عام ہے۔ اور یہ کچھ عجیب بھی نہیں لگتا کہ ہر کوئی اس پہ ہی بحث کرتا نظر آتا ہے۔ کوئی اس سے پریشان ہے تو کوئی زخیرہ اندوزی کا بازار گرم کئے بیٹھا ہے۔ کوئی اس مشکل وقت میں اللہ کے حضور اپنے گناہوں سے استغفار کر رہا ہے تو کوئی اس وقت میں بھی دنیا داری کو فوقیت دےتا نظر آ رہا ہے۔ زیرِ نظر مضمون بلاشبہ کسی نئے عنوان پہ نہیں ہے، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں بحثیت ایک فرد، اپنی ذمہ داری ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے، خواہ وہ کسی بھی درجہ کی ہو۔

COVID-19 ایک ایسی بیماری ہے، جس کا موجب کورونا نامی وائرس ہے۔اور یہ بیماری ملک چین کے صوبے ہوبی کے شہر ووہان سے شروع ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے اس بیماری نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اب اس بیماری کا بلاشبہ علاج تو تا حال دریافت نہیں ہوا، اور پوری دنیا کے طبی ماہرین سر جوڑ کے اس عالمی وبا کا علاج دریافت کر رہے ہیں، انشا ءاللہ جلد ہی کوئی کامیابی ملے گی۔

اب سوال یہ ہے کہ پاکستانیوں نے اس بیماری کو کتنا سنجیدہ لیا اور کیا احتیاطی تدابیر اختیار کیں، تو اس ضمن میں یہ بالکل واضح ہے ہماری قوم اس معاملے میں پریشان تو ہے ، لیکن وہیں پہ ایک خاص تناسب میں لوگ تمام احتیاطی تدابیر کو بالائے طاق رکھتے ہوئے، سیر و تفریح اور سماجی روابط اس گرم جوشی سے قائم رکھے ہوئے ہیں، جیسے یہ کوئی معمولی بات ہ

بلاشبہ حکومت اس معاملے میں کافی سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہی ہے، اور بہت سے ایسے احسن اقدام بھی اٹھا رہی ہے، جو کہ وقت کی ضرورت ہیں۔ اورجس سے عوام پہ بھی کافی مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ بے شک ہمارے ملک کی ایک بڑی تعداد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے، اور یہی ایک ایسا چیلنج ہے جس کا عوام کو سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس بیماری کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر دیہاڑی دار طبقہ ہوا ہے۔ لیکن اگر دوسری طرف دیکھا جائے تو یہ عارضی پابندیاں لگانے سے ہی وائرس کے پھیلاﺅ کے روک تھام میں مدد ملے گی۔

اگر ہم بات کریں کہ اس عالمی وبا کے روک تھام میں سب سے زیادہ کیا چیز ضروری ہیں، اور بحیثت ایک قوم ، اور معاشرہ کیسے ہم ایک دوسرے کا سہارا بن سکتے ہی

روک تھام کے لئے سب سے زیادہ ضروری سماجی روابط میں کمی ہے ۔ انتہائی عجیب بات ہے کہ ایک طرف تو عوام روز کورونا کی کی تباہ کاریوں کا سن سن کے نفسیاتی مریض بن چکے ہیں، وہیں دوسری طرف گھر میں بیٹھنا ،انکو سزا لگتا ہے۔ اور پھر نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بجائے بیماری رکنے کے، پھیلتی ہی جاتی ہے۔ ایک اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میںاس وبا کے مریضوں میں تقریباََ 60 فیصد لوکل مریض ہیں، جن کے بیماری دوسرے باہر سے آنے والے مریضوں سے منتقل ہوئی۔ لیکن عوام کے سر پہ جوں تک نہیں رینگتی۔

دوسری اہم چیز جو کہ اس وبا کے روک تھام میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے، وہ ہے صفائی کا خاص خیال رکھنا۔ الحمدللہ ہم مسلمان ہیں، اورہمارے دین نے ہمیں سکھایا ہے کہ صفائی نصف ایمان ہے، اور ساتھ ہی ساتھ پنجگانہ نماز کی ادائیگی کے لئے وضو کرنے سے بھی ہمارا جسم بھی صاف ہو جاتا ہے اور روح بھی۔ حال ہی میں آنے والی ایک غیر ملکی رپورٹ کے مطابق دوسرے ممالک میں اس وبا کے پھیلنے کی اہم وجہ بدن کی صفائی کا ناقص اہتمام ہے۔ پانی کا کوئی نعم البدل نہیں، جب کہ وہاں ٹشو پیپر کے استعمال سے وقتی طور پہ جسم صاف ہو بھی جائے لیکن، بہترین اور مکمل صفائی پھر بھی ادھوری رہ جاتی ہے۔

COVID-19 صرف ایک وبا ہی نہیں، بلکہ ایک آزمائش بھی ہے۔ اور اس آزمائش میں پورا اترنے کے لئے کچھ ایسے اہم اقدام ہیں، جو کہ ہمیں حکومتی سطح کے علاوہ اپنے ذاتی درجہ پہ اپنے معاشرہ ،اپنے اردگرد کے لوگوں سے معاملات کرنے چاہیئں۔

۱۔ بہن بھائیوں کی مدد: اس مدد سے مراد صرف راشن لے کے دینا ہی نہیں ہے بلکہ تمام ضرورتمند حضرات کو انکے گھر کی دہلیز پہ انکا حصہ پہنچانے کا اہتمام کرنا چاہیئے، اور کوشش کرنی چاہیئے کہ ان کی دیگر بنیادی ضروریات کا بھی خیال رکھا جائے۔آج کل ایک عام رجحان یہ پایا جا رہا ہے، کہ بہن بھائیوں کی مدد کے ساتھ ساتھ باقاعدہ ایک فوٹو سیشن منعقد کروایا جاتا ہے کہ جس میں صاحبانِ ثروت اپنی امارت اور دریا دلی کا لوہا منوانے کے لئے جتن کرتے ہیں۔ ہمارا دین ہمیں سکھاتا ہے کہ اتنی رازداری سے صدقہ کرو کے دوسرے ہاتھ کو بھی پتا نہ چلے۔

۲۔ عبادات کا خاص اہتمام: اللہ بزرگ و برتر، تمام تعریفوں کا مالک ہے۔ اسی نے یہ جہان بنایا، تمام مخلوقات کا خالق ہے۔ ہر خوشی ہرغم، ہر آسانی، ہر آزمائش اس اللہ کی طرف سے ہی ہے۔ بلاشبہ یہ وبا بھی ایک آزمائش ہے، اور اس آزمائش میں ہمیں چاہیئے کہ بجائے یہ کہ ہم وقت کو برباد کریں، بلکہ زیادہ سے زیادہ اللہ عزوجل کے آگے سجدہ ریز ہونے کی کوشش کریں، استغفار کو اپنا معمول بنائیں۔ اللہ کے ساتھ اپنا رشتہ مضبوط کریں۔ گناہوں سے بچنے کی حتی الامکان کوشش کریں، اور اپنے گناہوں سے معافی طلب کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سچا مسلمان بنائے۔

۳۔ صحتمند مصروفیات: ایک اہم بات یہ کہ بجائے اس کے کہ ہم اپنا وقت غیر ضروری سر گرمیوں میں گزاریں، ہمیں چاہیئے کہ ایسی سرگرمیاں اپنی زندگی کا جزو بنائیں، جس سے ہماری جسمانی اور روحانی صحت پہ مثبت اثرات مرتب ہوں۔ صبح کی سیر، جسمانی کثرت کی پابندی صحت کے لئے ضروری ہے بالکل اسی طرح، اچھی کتب کا مطالعہ ،اور کوئی ایسی مثبت سرگرمی بھی فائدہ مند ہے، جسکا آپکو بھی فائدہ ہو،معاشرہ بھی بہرہ مند ہو سکے۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ ہمیں گناہ معاف فرمائے اور اپنے حبیبِ مصطفیﷺ کے صدقے اس آزمائش سے ہمیں بحفاظت نکالے، اور اس وبا سے نجات عطا کرے۔ آمین۔

یہ بھی پڑھیں

لاہور؛ لاکھوں پاسپورٹ التوا کا شکار، شہری کئی ماہ سے پریشان

لاہور: محکمہ پاسپورٹ میں ساڑھے پانچ لاکھ سے زائد پاسپورٹ التوا کا شکار ہونے کی وجہ …