کرپشن کے خاتمہ کے حوالے سے بنائے گئے آرڈیننس مجریہ 1947میں سرکاری ملازمین کے اثاثہ جات کی تفصیلات طلب کرنے کے اختیارات کے باوجود محکمہ اینٹی کرپشن آج تک اس قانون پر عمل پیرا نہ ہو سکا

لاہور(میڈیا92نیوز)محکمہ اینٹی کرپشن رواں سال 2018 کو بھی اپنے بنائے ہوئے قوانین پر عمل درآمد کرنے میں ناکام ہو گیا، کرپشن کے خاتمہ کے حوالے بنائے گئے آرڈیننس مجریہ 1947میں سرکاری ملازمین کے اثاثہ جات کی تفصیلات طلب کرنے کے اختیارات کے باوجود محکمہ اینٹی کرپشن آج تک اس قانون پر عمل پیرا نہ ہو سکا ،صوبائی محکمہ جات کے ہزاروں ملازمین نے کروڑوں اربوں کے اثاثہ جات بنالئے ،احتسابی قوانین صرف پڑھنے کی حد تک محدود کر دیئے گئے ،تفصیلات کے مطابق انسداد رشوت ستانی کا محکمہ کئی دہائیوں سے اپنے ہی بنائے ہوئے قوانین پر ایکشن نہ لے سکا ،جس کی وجہ سے صوبائی حکومت کے محکمہ جات ایل ڈی اے،ریونیو،ہیلتھ،ایجوکیشن،کوآپریٹو،اوقاف،ضلعی انتظامیہ،پی ایچ سمیت 22محکمہ جات کے ہزاروں ملازمین ان قوانین سے استثناءکی بناءپر اپنی آنے والی نسلوں کے لئے بھی پیسہ اور اثاثہ جات بنانے میں کامیاب ہو چکے ہیں ،کرپشن کے خاتمہ کے حوالے سے بنائے گئے ایکٹ 1947 اور ترمیم شدہ ایکٹ 1960کی دفعہ 5Bاور 5Cکے مطابق محکمہ اینٹی کرپشن کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ ازخود نوٹس لیتے ہوئے یا کسی سورس رپورٹ کی بناءپر کاروائی کرتے ہوئے کسی بھی سرکاری ملازم کی آمدنی کے ذرائع، اثاثہ جات اور اس کے قریبی رشتہ داروں کے اثاثہ جات کی تفصیل بھی طلب کر سکتا ہے ، جھوٹی ،غلط معلومات دینے ، حقائق کو چھپانے کسی اثاثے کے پوشیدہ رکھنے کا جرم ثابت ہونے پر سرکاری ملازم کی تمام جائیداد بحق سرکار ضبط 7سال تک قید ،جرمانہ یا دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں ،اس قانون کو بنے ہوئے 67سال سے زیادہ عرصہ ہو چکا ہے لیکن محکمہ اینٹی کرپشن کی تاریخ میں ایک بھی ایسا آفیسر نہیں گزرا ہے جس نے اس آرڈیننس کا استعمال کرتے ہوئے کسی سرکاری ملازم کے اثاثہ جات کی تفصیل مانگی ہو یا اس کے خلاف ایکشن لیا ہواس کے ساتھ ساتھ صوبائی حکومت کے ماتحت 22محکمہ جات میں کسی ایک بھی سرکاری ملازم کا حوالہ نہیں دیا جاسکتا ہے جس کے خلاف یہ قانون استعمال کیا گیا ہو ،ایک ادنیٰ درجہ کلرک سے لے کر اعلیٰ گریڈ کے افسران تک اس وقت کروڑوں اربوں کے اثاثہ جات کے حامل ملازم و افسران ملیں گے جن کے پس منظر پر تحقیق کی جائے تو بڑے ہی دلچسپ حقائق سامنے آتے ہیں ،محکمہ ریونیو کے پٹواری،تحصیلدار،رجسٹری محررز،ضلع کچہریوںمیں بیٹھے ہو ئے کلرک،محکمہ ایجوکیشن میں اپنی خدمات دینے والے ملازمین و افسران،محکمہ صحت و ہسپتالوں کے انچارج،ایل ڈی اے کے ملازمین سمیت تمام صوبائی محکمہ جات میں ہزاروں ملازم و افسران موجود ہیں جو مناسب تنخواہوں کے باوجود شہر کی اعلیٰ سوسائٹیوں میں کروڑوں کی کوٹھیوں،زمینوں،کالج ،سکول،بنک بیلنس کے علاوہ اپنے رشتے داروں کے نام پر بنائے گئے اثاثہ جات کے بھی مالک ہیں جن پر محکمہ اینٹی کرپشن کے افسران سیکشن 5کا استعمال کرتے ہوئے اثاثہ جات کی تفصیل یا ان کے خلا ف ایکشن لے سکتے ہیں ،قانون میں راستہ ہونے کے باوجو د محکمہ اینٹی کرپشن کے افسران کی اس قانون کو استعمال نہ کرنے کی پالیسی بذات خود محکمہ اینٹی کرپشن کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے تاہم محکمہ اینٹی کرپشن کے ترجمان نے اپنے موقف میں کہا ہے محکمہ اینٹی کرپشن میں چیک اینڈ بیلنس کا مربوط نظام موجود ہے جس کے تحت کارروائی کی جاتی ہے،قانون سے کوئی بالا تر نہ ہے۔اور اب بڑے بڑوں پر ہاتھ ڈالا جارہا ہے کسی سے رعایت نہیں برتی جارہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں

زمین ڈاٹ کام نےلاہور میں تعمیر ہونے والے کثیرالمنزلہ منصوبے جے مال کی مارکیٹنگ اور سیلز کے حقوق حاصل کر لئے

زمین ڈاٹ کام نےلاہور میں تعمیر ہونے والے کثیرالمنزلہ منصوبے جے مال کی مارکیٹنگ اور …