اگست سے اگست تک (ڈاکٹر صفدر محمود)

(میڈیا92نیوزآن لائن)
(بشکریہ جنگ لاہور)
اگست کا مہینہ اپنے دامن میں بارشیں لئے آتا ہے تو میرے ذہن پر تحریک پاکستان، قیام پاکستان اور قائداعظم کی یادیں برسنے لگتی ہیں۔ پاکستان معرض وجود میں آیا تو میں کمسن تھا۔ میں نے قیام پاکستان کے بعد اسکول جانا شروع کیا اس لئے میں تحریک پاکستان اور قیام پاکستان کا عینی شاہد نہیں ہوں صرف ایک ادنیٰ طالب علم ہوں۔ نوجوانوں سے کئی حوالوں سے رابطہ رہتا ہے چنانچہ مجھے اندازہ ہے کہ ہمارے نوجوان تحریک پاکستان کے مقاصد، محرکات اور قائداعظم کے کارناموں سے تقریباً نابلد ہیں، اس لئے جی چاہتا ہے کہ قارئین کو اگست 1947کی اہمیت اور کتابی یادیں بتاتا رہوں اور نوجوان نسلوں تک معلومات پہنچاتا رہوں۔
اگست 1947کے بارے لکھنے سے پہلے اُن دو خطرات یا اہم واقعات پر مختصر اظہارِ خیال ضروری ہے جو اس وقت میرے ذہن پر چھائے ہوئے ہیں۔ ہندوستان کا وادی نیلم کے علاقوں پر کلسٹر بم برسانا ایک ایسی پیش رفت ہے جو مزید اشتعال اور چھوٹی موٹی لڑائی یا جنگ کا موجب بن سکتی ہے۔ مودی کی مسلمانوں کے لئے نفرت اور پاکستان کے خلاف عزائم ڈھکے چھپے نہیں۔ پاکستان کے ساتھ نرم سلوک یا مہذب اور مصالحانہ رویہ اُسے بالکل ’’سوٹ‘‘ (Suit)نہیں کرتا اور نہ ہی اُس کے سیاسی حوالے سے حمایتی حلقے اِسے پسند کریں گے۔ ترقی پذیر ممالک کی جمہوریتوں کی یہی ٹریجڈی ہے کہ پہلے لیڈر ووٹروں کے عامیانہ جذبات بھڑکا کر ووٹ لیتے ہیں اور پھر اپنے جذباتی الفاظ کے اسیر بن جاتے ہیں۔ نفرت، انتقام اور طاقت کے شکنجوں سے رہائی حاصل کرنا آسان کام نہیں ہوتا۔ کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ مودی ابھی تک ابھی نندن کا صدمہ نہیں بھولا اور اُس شکست کا بدلہ لینے کے لئے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرتا رہے گا۔ کلسٹر بموں کا حملہ بھی اسی نفسیات کا حصہ ہے۔ کچھ دوستوں کا نقطہ نظر ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی تحریک، کشمیریوں کے جوش و جذبے اور قربانیوں نے مودی کو بوکھلا دیا ہے اور اُن کو پیغام دینے اور دنیا کی توجہ ہٹانے کے لئے ایسی حرکات کر رہا ہے اور مستقبل میں بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا، ان تمام عوامل کے ساتھ ساتھ ایک اہم پیش رفت امریکی صدر کی مصالحتی پیشکش بھی ہے جس سے مودی کو دھچکا لگا ہے۔ صدر ٹرمپ سے تنہائی میں راز و نیاز کے انداز سے کی گئی گفتگو یوں سرعام مشتہر ہونے کی مودی کو توقع نہ تھی۔ اگر مودی نے ٹرم سے مصالحت کی بات نہ کی ہوتی تو وہ خود تردید کرتا۔ صرف حکومتی ذرائع کی تردید پر انحصار نہ کرتا اور نہ ہی صدر ٹرمپ اپنی پیشکش کو دوبارہ دہراتا۔ مودی حکومت نے کلسٹر بم برسا کر ٹرمپ کو بھی پیغام دیا ہے اور ٹرمپ کی پیشکش کے اثر کو زائل کرنے کی بھی کوشش کی ہے۔ اہم مقصد انتہا پسندوں اور اپنے ووٹ بینک کو مطمئن کرنا ہے۔

دوسری پیش رفت جو میری توجہ کا دامن کھینچ رہی ہے وہ ہے سینیٹ میں تحریک عدم اعتماد کا حشر! اس حوالے سے ان گنت تجربات بھی ہو چکے ہیں اور سیاسی قائدین کے فرمودات بھی چھپ چکے ہیں لیکن کیا آپ نے عوامی سرد مہری اور لا تعلقی ملاحظہ کی؟ سوچنے کی نہیں دیکھنے کی بات فقط اتنی سی ہے کہ موجودہ حکومت کرپشن کے خاتمے اور سیاسی لوٹ مار کے خلاف جہاد کے لئے ووٹ لے کر برسرِ اقتدار آئی تھی۔ وزیراعظم بار بار اپنے اس عزم کا اظہار کرتے ہیں کہ وہ کرپشن کو ختم کر کے دم لیں گے، خزانہ لوٹنے والوں سے رقم واپس لے کر دکھائیں گے، منی لانڈرنگ کا ہر صورت خاتمہ کریں گے وغیرہ وغیرہ۔ چنانچہ اس منشور پر عمل کرتے ہوئے حکومت نے بہت سے سیاسی لیڈروں، سرکاری ملازمین اور کاروباری حضرات کو جیلوں میں دھکیل دیا ہے، نت نئے انکشافات اس انداز سے کئے جا رہے ہیں کہ بڑے لیڈروں کا ووٹ بینک ختم کیا جائے یا کم سے کم محدود اور کمزور کیا جائے۔ کچھ سیاسی پارٹیوں اور قائدین کو سیاست سے دیس نکالا دینے کی ہر ترکیب آزمائی جا رہی ہے اور خاندان کے خاندان زیر عتاب آ چکے ہیں۔ قوم مقدمات کے ثابت ہونے اور اربوں کھربوں کی ریکوری یا واپسی کی منتظر ہے۔ کرپشن کے خلاف اس منظر نامے میں سینیٹ کی کارکردگی نہ صرف ایک بہت بڑا دھچکا اور صدمہ ہے بلکہ اس نے حکومت کے تمام دعوئوں کے غباروں سے بھی ہوا نکال دی ہے۔ کروڑوں، اربوں لے کر پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دبائو کے تحت ووٹ دینا کرپشن نہیں تو اور کیا ہے لیکن منتخب اراکین پھر بھی صادق و امین رہتے ہیں؟ مولانا سراج الحق کا تبصرہ واجب ہے کہ یہ دولت کا دولت سے مقابلہ تھا۔ ہار جیت کی اس مہم میں بہت سے محرکات اور تلخ حقائق کا ذکر ہو رہا ہے لیکن بالآخر بات کرپشن پر ختم ہوتی ہے۔ کوئی سرکاری ملازم رشوت لے تو نیب کے پھندے میں پھنس جاتا ہے لیکن پارلیمنٹ کے منتخب اراکین کے لئے سب کچھ جائز ہے۔ وہ ووٹ فروخت کریں یا حکومت سے الاٹمنٹیں کروائیں، غلط کام کروائیں یا نافرمانی پر افسران کو دن رات تبدیل کروائیں سب کچھ جائز اور حلال ہے۔ عوامی سطح پر یہ تاثر موجود ہے کہ اراکین اسمبلی، جنہیں قوم قانون سازی کے لئے منتخب کرتی ہے وہ خود قانون سے بالا ہیں اور اُن کی سیاسی رشوت ہر طرح جائز ہے۔ ان حالات میں حکومت قانون کی بالادستی یا قانون کی حکمرانی کا دعویٰ کیسے کر سکتی ہے؟ میری طالب علمانہ رائے میں ایک خطرناک کلچر پروان چڑھ رہا ہے جس سے کرپشن کی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے اور قانون کی حکمرانی مذاق بنتی جا رہی ہے۔ نوبت ایں جا رسید کہ عام شہری طنزاً پوچھتا ہے کون سا قانون؟ لیڈروں کی دیکھا دیکھی لوگ رشوت کو معمول کی بات سمجھنے لگے ہیں اور کسی بھی سرکاری محکمے میں جائز کام بھی رشوت دیئے بغیر نہیں ہوتا۔ حکمران کیا جانیں کہ جس ملک پر دن رات رشوت اور حرام کی بارش ہوتی ہو، محروم طبقات انصاف اور بنیادی ضروریات سے محروم ہوں اور بالاتر طبقے بے حس ہوں اُس ملک پر کبھی بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت نہیں برستی۔

بات چلی تھی اگست کی یادوں سے کیونکہ اگست ہماری صدیوں کی غلامی سے رہائی اور آزادی کا مہینہ ہے۔ اس مہینے نے ہمیں ’’پاکستانی‘‘ ہونے کی شناخت عطا کی اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے رمضان کے مقدس مہینے میں شب قدر کی نعمتوں والی رات ہمیں پاکستان کا تحفہ دیا۔ یاد رہے 14-15اگست 1947 کی نصف شب جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو وہ شب قدر تھی۔ ہم نے اس عظیم نعمت کا کیا حشر کیا؟ سوچتا ہوں تو قرآن حکیم میں بیان کردہ قوم بنی اسرائیل کی ناشکریاں یاد آتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

ملائکہ اروڑا کا سابق شوہر ارباز خان کیساتھ فیملی ڈنر، ویڈیو وائرل

ممبئی: بالی ووڈ اداکارہ و ماڈل ملائکہ اروڑا نے اپنے سابق شوہر ارباز خان اور اُن کی …