قانون برائے متحرک بے ضمیری (یاسر پیر زادہ )

(میڈیا92نیوز آن لائن)
(بشکریہ جنگ لاہور)

اگر آپ سات کو تین سے ضرب دیں تو جواب آئے گا اکیس۔ یہ سوال اگر آپ مولوی صاحب سے پوچھیں تو بھی جواب اکیس ہی ملے گا، کسی پادری، جوگی، وید، حکیم، کاہن، ڈاکٹر، ہم جنس پرست، شادی شدہ، کنوارے، امریکی، چینی، تاجر یا نوکری پیشہ سے پوچھیں تو ان سب کا جواب بھی اکیس ہوگا۔ ریاضی کا کوئی سوال کسی بھی شخص سے پوچھیں اُس کا جواب دوسرے شخص سے مختلف نہیں ہوگا، چاہے اُس کا تعلق کسی بھی زبان، رنگ، نسل، مذہب یا خطے سے کیوں نہ، چاہے وہ بحرالکاہل میں مچھلیاں پکڑ رہا ہو یا افغانستان میں اسمگلنگ کر رہا ہو، ہر مقام اور ہر وقت میں ریاضی کے معموں کا ایک ہی جواب ملے گا، ان میں باہم کوئی تضاد نہیں ہوگا۔ اسی طرح سائنس کے قوانین بھی سب کے لیے یکساں ہیں، کسی عمارت کی دسویں منزل سے اگر کوئی شخص پتھر پھینکے گا تو لامحالہ پتھر نیچے کی طرف ہی آئے گا چاہے پھینکنے والا یہودی ہو یا ہندو، پتھر پر کچھ پڑھ کر پھونکا جائے یا یونہی پھینک دیا جائے، یہ ممکن ہی نہیں کہ پتھر پر کشش ثقل اثر نہ کرے۔ لیکن اگر کسی سے پوچھا جائے کہ اسرائیل اور فلسطین میں سے کون ٹھیک ہے یا سوال کیا جائے کہ کشمیر میں ہندوستانی فوج اور مجاہدین میں سے کون صحیح ہے تو ہر شخص کا اپنا مختلف جواب ہوگا، سائنس یا ریاضی کے سوالوں کے برعکس اس قسم کے سوالات کا کوئی حتمی جواب ممکن نہیں کیونکہ انسانوں کو ریاضی یا سائنس کے اصولوں کے تحت نہیں سمجھا جا سکتا، دو مختلف انسانوں کو ایک وقت میں ایک ہی قسم کا مسئلہ درپیش ہو سکتا ہے مگر ضروری نہیں کہ اُس مسئلے کا یکساں حل دونوں کے لیے کارگر ثابت ہو۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ ہر انسان چھوٹے بڑے تضادات کا مجموعہ ہوتا ہے، ایک ہی وقت میں ہم کئی متضاد باتیں کرتے ہیں اور پھر ان باتوں میں ربط پیدا کرنے کی ناکام کوشش بھی کرتے ہیں، جب کوئی شخص کسی معاملے پر اپنی رائے قائم کرتا ہے تو اس کے پاس کوئی نہ کوئی ڈیٹا ہوتا ہے یا وہ کسی چھوٹے موٹے ثبوت کی بنیاد پر اپنا نقطہ نظر اپناتا ہے، جب ایسے شخص کو اس کی رائے کے برخلاف کوئی اضافی ثبوت مہیا کر دیا جائے تو وہ بےاطمینانی کی کیفیت میں چلا جاتا ہے اور اپنی رائے کو درست ثابت کرنے کے چکر میں کوئی تاویل تلاش کرتا ہے یا کوئی ایسا کام کرتا ہے جس سے اس کے نقطہ نظر کو تقویت مل سکے، انسانی نفسیات کی اِس کیفیت کو Cognitive Dissonanceکہتے ہیں (قریب ترین ترجمہ شاید ’’ذہنی ناہمواری‘‘ ہوگا) اس کی مثالیں بہت دلچسپ ہیں، مثلاً سگریٹ کی ڈبی پر ایک نہایت مکروہ قسم کی تصویر بنی ہوتی ہے اور نیچے لکھا ہوتا کہ سگریٹ پینے سے آپ کو اس قسم کا کینسر لاحق ہو سکتا ہے مگر اِس کے باوجود لوگ سگریٹ پیتے ہیں، کچھ ایسے سیانے بھی ہوتے ہیں جو اپنے تئیں صحت کا بہت خیال رکھتے ہیں مگر سگریٹ پینے سے باز نہیں رہ سکتے اور جو خود کو ضرورت سے زیادہ عقل مند سمجھتے ہیں (جیسے کہ میں) وہ تصویر والی ڈبی ہی نہیں خریدتے، گویا ان کے خیال میں جس ڈبی پر تصویر نہیں ہوگی وہ سگریٹ مضر صحت نہیں ہوگا۔ اسی طرح جب ہم وزن کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس دوران ہمارا دل پراٹھا کھانے کو چاہتا ہے تو ہم یہ تاویل گھڑ لیتے ہیں کہ ایک پراٹھے سے کچھ نہیں ہوتا، اس کے بعد نہیں کھاؤں گی، رات کے کھانے میں ازالہ کر دوں گی یا تیس کی بجائے ساٹھ منٹ واک کرکے کیلوریز پوری کر لوں گی۔ یہ تمام cognitive dissonanceکی کیفیات ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

ملائکہ اروڑا کا سابق شوہر ارباز خان کیساتھ فیملی ڈنر، ویڈیو وائرل

ممبئی: بالی ووڈ اداکارہ و ماڈل ملائکہ اروڑا نے اپنے سابق شوہر ارباز خان اور اُن کی …