ضمنی الیکشن ثابت کرے گا کہ یہ الیکشن کمیشن ہے یا سلیکشن کمیشن ہے بلاول بھٹو کی تبدیلی سرکار پر تابڑ توڑ حملے ، انکے خطاب کے اہم نکات پڑھیے

پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے وزیر اعظم عمران خان اور وفاقی حکومت کو عوام کے حقوق پر حملہ آور قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہم اپنے جمہوری، سیاسی اور معاشی حقوق کا تحفظ کریں گے۔

خیبر پختونخوا میں ضم ہونے والے قبائلی اضلاع میں ضمنی انتخابات کے لیے جاری مہم کے دوران ضلع مہمند کے علاقے یکہ غنڈ میں عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے وفاقی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔

وزیر اعظم عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘ان کا دوغلا نظام اور ان کی منافقت دیکھو، ان کا ایک نہیں دو نیا پاکستان دیکھو جس میں غریب کی جھونپڑی حرام ہے مگر بنی گالہ کی انکروچمنٹ حلال ہے، جہاں لاہور کی میٹرو بس حرام ہے مگر پشاور کی نامکمل اور مہنگی ترین میٹرو بس حلال ہے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘یہ کس قسم کی منافقت ہے کہ نواز شریف کی آف شور کمپنی حرام ہے مگر لاڈلے کی آف شور کمپنی حلال ہے، الطاف حسین، ایم کیو ایم کی غیر ملکی فنڈنگ حرام لیکن لاڈلے کو ہونے والی غیر ملکی فنڈنگ حلال ہے، سابق صدر آصف زرداری کے دوستوں کے بے نامی اکاؤنٹس حرام ہیں مگر لاڈلے کے امیر ترین دوستوں کے بے نامی اکاؤنٹس حلال ہیں’۔

بلاول نے کہا کہ ‘رانا ثنااللہ کی منشیات حرام ہیں مگر ہمارے وزیر اعظم کی منشیات تو حلال ہیں’۔

عوامی اجتماع سے خطاب کے دوران انہوں نے کہا کہ ‘اب وفاق میں آکر آپ کے وسائل پر ڈاکا ڈال رہے ہیں، یہ عوام دشمن بجٹ اٹھا کر دیکھو، وفاق کی ناکامی کی وجہ سے صوبے دیوالیہ ہورہے ہیں، خیبر پختونخوا، سندھ، پنجاب، بلوچستان کو اپنے حصے سے کم پیسہ مل رہا ہے’۔

پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے کہا کہ ’کے پی کو 40 ارب روپے کم مل رہے ہیں، 40 ارب روپے سے ہم کے پی اور قبائلی علاقوں میں کتنے نئے اسکول اور نئے ہسپتال تعمیر کر سکتے تھے، 40 ارب روپے سے ہم اپنے قبائلی علاقوں کے بے روزگار نوجوانوں کو کتنا روزگار فراہم کر سکتے تھے’۔

انہوں نے کہا کہ ‘یہ آپ کا پیسہ ہے، یہ آپ کے خون پسینے اور ٹیکس کا کمایا ہوا پیسہ ہے، یہ اسلام آباد کے کسی کٹھ پتلی کا پیسہ نہیں ہے، اس لیے آپ کو فیصلہ کرنا چاہیے کہ یہ پیسہ کہاں اور کیسے خرچ ہوگا’۔

بلاول بھٹو زرداری نے حکومت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ‘یہ جھوٹے لوگ ہیں اور جھوٹ پر جھوٹ بولتے ہیں، صوبوں کو آپس میں لڑوانا چاہتے ہیں اور اسلام آباد کے لیے زیادہ پیسہ چھیننا چاہتے ہیں’۔

قبائلی علاقوں میں ترقیاتی کاموں کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ‘آصف زرداری کے دور میں ہم نے قبائلی علاقوں کا بجٹ 5 سو فیصد بڑھایا اور اگر عمران خان سچے ہیں تو ان کو بھی قبائلی علاقوں کا بجٹ ایک ہزار فیصد بڑھانا چاہیے، لیکن انہوں نے تعلیم، صحت اور ترقیاتی بجٹ میں کٹوتی کی’۔

بلاول کا کہنا تھا کہ ‘انہوں نے قبائلی علاقوں کے دو اراکین اسمبلی محسن داوڑ اور علی وزیر کو بجٹ میں آنے نہیں دیا لیکن میں چیختا رہا کہ اگر جنوبی وزیرستان اور شمالی وزیرستان کے نمائندوں کے بغیر بجٹ پاس ہوا تو یہ دھاندلی ہوگی’۔

ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘اب حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ مرنا مہنگا ہے، جینا مہنگا ہے مگر خون سستا ہے، یہ کس قسم کی حکومت ہے، یہ کس قسم کی تبدیلی ہے یہ کس قسم کا انصاف ہے، مہنگائی کی سونامی نے عوام کو ڈوبو دیا ہے، ٹیکسز کے طوفان نے عوام کو بہا دیا ہے اور بے روزگاری کے دلدل میں دھکیل دیا ہے’۔

انہوں نے مزید کہا کہ ‘جب تک ہمارے جمہوری حقوق محفوظ نہیں ہوں گے، جب تک ہمارے انسانی حقوق محفوظ نہیں ہوں گے، جب تک معاشی حقوق محفوظ نہیں ہوسکتے تو ہمیں اپنے حقوق کا تحفظ کرنا پڑے گا’۔

بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ ‘ہر طرف سے حملے ہورہے ہیں لیکن ہم یہ جمہوریت، 1973 کا آئین، اٹھارویں ترمیم اور ہمارا اسلامی وفاقی پارلیمانی جمہوری نظام کا دفاع کریں گے اور ہم اپنے جمہوری حقوق، انسانی حقوق اور معاشی حقوق کا دفاع کریں گے’۔

وزیراعظم کو ‘سلیکٹڈ’ قرار دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ‘سلیکٹڈ وزیراعظم صدارتی نظام نافذ کرنا چاہتا ہے اور ون یونٹ قائم کرنا چاہتا ہے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘یہ کس قسم کی آزادی اور جمہوریت ہے کہ ہم 2018 میں بھی آزادانہ اور شفاف انتخابات نہیں کرا سکتے، ملک بھر میں بندوق کے زور پر ہمارے پولنگ ایجنٹس کو پولنگ اسٹیشن سے باہر پھینکا گیا، آر ٹی ایس کے بہانے تین سے چار دن تک نتائج روک دیے گئے’۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ ‘پاک فوج کو پہلی بار پولنگ اسٹیشنز کے اندر اور باہر کھڑا کردیا جس سے ہمارے ادارے کو بلاوجہ متنازع بنایا گیا، آج بھی قبائلی علاقوں میں انتخابات ہورہے ہیں اور آج بھی وہی ہورہے ہیں’۔

قبائلی علاقوں میں ضمنی انتخابات کے حوالے ان کا کہنا تھا کہ ‘جب ضیاالحق اور پرویز مشرف نے فوج کو پولنگ اسٹیشن کے اندر نہیں بھیجا، اگر 2018 اور 2013 کے الیکشن میں جب دہشت گردی عروج پر تھی تو ہم نے فوج کو پولنگ اسٹیشن کے اندر اور باہر نہیں بھیجا تو عمران کے لیے یہ سب کچھ کیوں ہو رہا ہے اور میرے ادارے کو متنازع کیوں بنارہے ہیں، اپنی سیاست کے لیے اس کو متنازع نہ بنائیں’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘یہ کس قسم کے صاف و شفاف انتخابات ہیں کہ قبائلی علاقوں میں انتخابات ہورہے ہیں اور آپ نے دفعہ 144 نافذ کردی، اس کے تحت کیسے شفاف انتخاب ہوسکتا ہے’۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ ‘صرف پی ٹی آئی اور اس کے نمائندوں کو انتخابات کی اجازت ہے، دفعہ 144 کے نام پر اپوزیشن کے امیدواروں کو ہراساں کیا جاتا ہے، یہ شفاف انتخابات سے کیوں ڈرتے ہیں’۔

الیکشن کمیشن کو انہوں نے کہا کہ ‘الیکشن کمیشن جاگو، آپ کتنے انتخابات عمران خان کے لیے دھاندلی زدہ ہونے دیں گے، یہ ضمنی انتخاب ثابت کرے گا کہ ہمارے پاس الیکشن کمیشن ہے یا سلیکشن کمیشن ہے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘اگر صاف و شفاف انتخابات نہ ہوئے تو پھر یہ کس قسم کی جمہوریت اور کس قسم کی آزادی ہے، نہ عوام آزاد، نہ سیاست آزاد، نہ صحافت آزاد ہے’۔

پی پی پی چیئرمین کا کہنا تھا کہ ‘یہ جو میڈیا یہاں کھڑا ہے ہمارا میڈیا سینسرڈ ہے، یہ میڈیا سب کچھ نہیں دکھا سکتا ہے، ایسا آمریت میں ہوتا ہے لیکن جمہوریت میں نہیں ہوتا ہے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘آپ کے چینلوں میں دہشت گردوں کی گفتگو تو چل سکتی ہے، بھگوڑے اور فوجی آمر کا انٹرویو چل سکتا ہے، را کے ایجنٹ کلبھوشن یادیو اور بھارتی فضائیہ کے پائلٹ کا انٹرویو تو چل سکتا ہے لیکن میرے قبائلی نوجوانوں کا انٹرویو نہیں چل سکتا، میرے ملک کے سابق وزیر اعظم اور سابق صدر کا انٹرویو نہیں چل سکتا’۔

بلاول نے کہا کہ ‘یہ کس قسم کی آزادی اور کس قسم کی جمہوریت ہے کہ ہماری آزادی رائے کو تحفظ دینے کے بجائے ہماری زباں بندی کی جارہی ہے’۔

یہ بھی پڑھیں

جینیات سے وابستہ تناؤ ہارٹ اٹیک کا خطرہ زیادہ بڑھا دیتا ہے

بوسٹن: حال ہی میں ہونے والے ایک مطالعے سے پتہ چلا ہے کہ جینیاتی طور پر …