پاکستان کی توانائی مارکیٹ اہم موڑ پر کھڑی ہے، عمر ایوب خان

اسلام آباد(میڈیا92نیوز آن لائن )

وفاقی وزیر برائے پاور ڈویژن عمر ایوب خان نے کہا ہے کہ پاکستان کی توانائی مارکیٹ اہم موڑ پر کھڑی ہے، توانائی کی فراہمی بہتر بنائے بغیر اقتصادی سرگرمیاں نہیں بڑھ سکتیں، سارک ممالک کے عوام کی بہتری کے لئے علاقے میں اس شعبہ میں تعاون ہمارا مشترکہ مقصد ہونا چاہیے، اسی سے لوگوں کا رہن سہن بہتر ہو گا، علاقے میں ہم آہنگی، امن کا فروغ اور تنازعات کا حل بھی ہمارا مقصد ہے اس سلسلے میں پاکستان کی بجلی کی پیداواری استعداد 30 ہزار میگاواٹ سے زائد ہے، 60 فیصد انرجی مکس، تیل، کوئلے اور دیگر ایندھن پر ہے جبکہ 30 فیصد حصہ پن بجلی، 6 فیصد نیوکلیئر اور 4 فیصد قابل تجدید وسائل کا ہے، ہم قابل تجدید توانائی کا حصہ 2030 تک 30 فیصد تک لے جانا چاہتے ہیں.

اسی طرح ہائیڈل کو بھی بڑھائیں گے۔انہو ں نے ان خیالات کا اظہار پیر کو یہاں سارک ورکنگ گروپ برائے توانائی کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ سارک ممالک کے درمیان توانائی کے شعبے میں تعاون، تنازعات کے حل، علاقائی ہم آہنگی اور امن کے فروغ کی ضرورت ہے، خطے میں ترقی کے لئے توانائی کا شعبہ بہت اہم ہے، اس شعبے میں ہم ایک دوسرے سے الگ تھلگ نہیں رہ سکتے، پاکستان اپنا انرجی مکس تبدیل کر رہا ہے، قابل تجدید توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری بڑھائیں گے، امید ہے کہ سارک ورکنگ گروپ برائے توانائی خطے میں سستی بجلی کی فراہمی، معیشت کی بہتری اور عوام کا معیار زندگی بلند کرنے کے لئے مثبت تجاویز دے گا۔ ۔ عمر ایوب خان نے کہاکہ پاکستان کی توانائی مارکیٹ اہم موڑ پر کھڑی ہے۔

توانائی کی فراہمی بہتر بنائے بغیر اقتصادی سرگرمیاں نہیں بڑھ سکتیں، سارک ممالک کے عوام کی بہتری کے لئے علاقے میں اس شعبہ میں تعاون ہمارا مشترکہ مقصد ہونا چاہیے، اسی سے لوگوں کا رہن سہن بہتر ہوگا، علاقے میں ہم آہنگی، امن کا فروغ اور تنازعات کا حل بھی ہمارا مقصد ہے اس سلسلے میں پاکستان کی بجلی کی پیداواری استعداد 30 ہزار میگاواٹ سے زائد ہے۔ 60 فیصد انرجی مکس، تیل، کوئلے اور دیگر ایندھن پر ہے جبکہ 30 فیصد حصہ پن بجلی، 6 فیصد نیوکلیئر اور 4 فیصد قابل تجدید وسائل کا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم قابل تجدید توانائی کا حصہ 2030 تک 30 فیصد تک لے جانا چاہتے ہیں، اسی طرح ہائیڈل کو بھی بڑھائیں گے اور 60 فیصد بجلی 2030 تک ہم صاف توانائی کے ذریعے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ پاکستان میں کوئلے کے بھی وسیع ذخائر ہیں، تھرکول کے ایک پلانٹ سے پیداوار شروع ہو گئی جبکہ دوسرا بھی جلد شروع کردے گا۔ انہوں نے کہا کہ 2030 تک برآمدی ایندھن پر انحصار کم ہو جائے گا.

بجلی کی درآمد اور درآمدی ایندھن سے کرنسی، سپلائی کی صورتحال اور اشیا کی قیمتوں پر اثر پڑتا ہے، ہمیں اپنی پیداواری استعداد بڑھانی ہو گی، 12 سے 13 ماہ میں ہم 2 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے ذریعے 750 میگاواٹ بجلی تیزی کے ساتھ سسٹم میں شامل کریں گے۔ بجلی کی خرید وفروخت کو کثیر طرفہ بنانے، ویلنگ اور نیٹ میٹرنگ کی بھی ہم حوصہ افزائی کررہے ہیں، ٹرانسمیشن سسٹم پر بھی توجہ دی جارہی ہے ، کاسا 1000 اور ترکمانستان سے افغانستان کے راستے بھی بجلی حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ہم ٹرانسمیشن لائن کے نظام کو خطے میں ایک دوسرے سے جوڑنا چاہتے ہیں، آٹو میٹرنگ سسٹم اور ٹرانسفارمرز پر میٹرز کی تنصیب سے بجلی کی فراہمی اور استعمال کے بارے میں بروقت اور مصدقہ معلومات حاصل ہو سکیں گی.

پری پیڈ میٹرنگ سسٹم بھی متعارف کرانے پر غور ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہاکہ بجلی کی پیداوار کے شعبے میں 2030 تک 40 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے لیے کوشاں ہیں جبکہ ڈسٹری بیوشن کے نظام میں 10سے 15 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی گنجائش ہے۔ 8000 میگاواٹ بونجی ڈیم، داسو پن بجلی منصوبہ، دیامر بھاشا ڈیم جیسے منصوبے توانائی کی پیداوار بڑھانے کے لئے اہم ہیں، جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے ہم بجلی کی لاگت میں بھی کمی لا سکتے ہیں۔ عمر ایوب خان نے کہاکہ سارک ورکنگ گروپ برائے توانائی کا اجلاس خطے میں توانائی کے شعبہ میں تعاون کے لئے بہت اہم ہے، امید ہے کہ ورکنگ گروپ توانائی کے شعبہ میں اہداف کے حصول کے لئے تعمیری کردار ادا کرے گا اور ایسی مثبت تجاویز دے گا جن سے ہم اپنے بچوں کو بہتر تعلیم ، عوام کو بہتر معیار زندگی، روزگار اور سستی بجلی جیسی سہولیات فراہم کر سکیں گے۔

یہ بھی پڑھیں

جینیات سے وابستہ تناؤ ہارٹ اٹیک کا خطرہ زیادہ بڑھا دیتا ہے

بوسٹن: حال ہی میں ہونے والے ایک مطالعے سے پتہ چلا ہے کہ جینیاتی طور پر …