عینی شاہدین کو طلب کرکے بیانات ریکارڈ کرنے کا حکم دے دیا

چیف جسٹس نے سانحہ ساہیوال کے حوالے سے اہم فیصلہ جاری کر دیا

لاہور (میڈیا 92 نیوز/رپورٹ رضا ملک سے)
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس سردار محمد شمیم خان نے سانحہ ساہیوال کے متاثرین کو واقعے کی جوڈیشل انکوائری کرانے کی پیشکش کرتے ہوئے عینی شاہدین کو طلب کرکے بیانات ریکارڈ کرنے کا حکم دے دیا۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس سردار محمد شمیم خان کی سربراہی میں جسٹس صداقت علی خان پر مشتمل دو رکنی بنچ نے سانحہ ساہیوال پر جوڈیشل کمیشن بنانے کی درخواستوں پر سماعت کی۔ سماعت کے دوران وفاقی حکومت کے وکیل نے عدالت عالیہ کو بتایا کہ وزیراعظم نے پنجاب حکومت سے سانحہ ساہیوال پر رپورٹ مانگ لی ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ متاثرہ فریقین نے وزیراعظم سے جوڈیشل کمیشن بنانے کے لیے استدعا نہیں کی۔


وزیراعلیٰ پنجاب نے سانحہ ساہیوال پرجوڈیشل کمیشن کے قیام کا مطالبہ مسترد کردیا. جس پر چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے استفسار کیا کہ یہ بتائیں کیا ضروری ہے کہ کوئی متاثرہ فریق ہی درخواست دے؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ یہ ضروری نہیں کہ جوڈیشل کمیشن کے لیے متاثرہ فریق درخواست دے۔ جسٹس صداقت علی خان نے سرکاری وکیل سے استفسار کیا کہ وقوعہ کی تاریخ بتائیں۔ ساتھ ہی انہوں نے ریمارکس دیئے کہ یہ ہوا میں لکھتے ہیں، سب کچھ ہو رہا ہے، لیکن کاغذ میں کچھ نہیں ہوتا۔ سرکاری وکیل نے بتایا کہ جے آئی ٹی جائے وقوع کا بار بار دورہ کر رہی ہے جبکہ سی سی ٹی وی فوٹیج اور اہلکاروں کو لیب میں بھجوا دیا گیا ہے۔ جسٹس صداقت علی خان نے سرکاری وکیل سے استفسار کیا کہ کن کن کے بیانات ریکارڈ کئے گئے ہیں؟ چشم دید گواہان کے بیانات سے متعلق بتائیں۔

سرکاری وکیل نے بتایا کہ ابھی تک چشم دید گواہ کا بیان ریکارڈ نہیں ہوا۔ سماعت کے دوران سرکاری وکیل نے عدالت عالیہ کو بتایا کہ سانحہ ساہیوال کے تمام ملزمان جسمانی ریمانڈ پر ہیں اور اے ایس آئی محمد عباس کا بیان ریکارڈ کیا گیا ہے.دوران سماعت چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے مقتول خلیل کے بھائی جلیل کے وکیل بیرسٹر احتشام سے استفسار کیا آپ کا کوئی گواہ موجود ہے؟ جس پر بیرسٹر احتشام نے جواب دیا کہ عمیر خلیل ہمارا اہم گواہ ہے، ابھی اس کا بیان جمع کرا رہے ہیں. جسٹس محمد شمیم خان نے ہدایت کی کہ آج ہی عمیر کا بیان ریکارڈ کرائیں۔

چیف جسٹس نے بیرسٹر احتشام سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ عینی شاہدین کے نام دیں، اگر آپ ان پر بھروسہ کریں گے تو آپ کا کیس خراب ہوجائے گا۔ اس موقع پر چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے متاثرین کو جوڈیشل کمیشن کی بجائے جوڈیشل انکوائری کرانے کی پیشکش کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ کہیں تو جوڈیشل انکوائری کا حکم دے سکتے ہیں۔ چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیئے کہ جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کو آپ کیس کا حصہ نہیں بنا سکیں گے، لیکن اگر مجسٹریٹ سے جوڈیشل انکوائری کروائی

یہ بھی پڑھیں

جینیات سے وابستہ تناؤ ہارٹ اٹیک کا خطرہ زیادہ بڑھا دیتا ہے

بوسٹن: حال ہی میں ہونے والے ایک مطالعے سے پتہ چلا ہے کہ جینیاتی طور پر …