کابل خودکش دھماکے:ہلاکتوں کی تعداد103ہوگئی‘امریکیوں نے ایئرپورٹ اور گردونواح کے علاقوں کا کنٹرول طالبان کے حوالے کردیا

کابل/واشنگٹن/اسلام آباد(میڈیا 92) افغان دارالحکومت کابل میں خودکش حملوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعدادسو سے تجاوزکرگئی ہے وزارت صحت نے ہلاکتوں میں اضافے کے خدشے کا اظہار کیا ہے جبکہ امریکی محکمہ دفاع نے 13امریکی فوجیو ں کے ہلاک ہونے کی تصدیق کردی ہے.

ادھر کابل میں موجود ذرائع نے اردوپوائنٹ کے ایڈیٹر میاں محمد ندیم سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا ہے کہ امریکی محکمہ دفاع کی درخواست پر طالبان نے ایئرپورٹ اور گرد ونواح کے علاقوں میں مجاہدین کو سیکورٹی ڈیوٹی پر تعینات کردیا ہے انہوں نے کہا کہ کابل میں ہسپتال زخمیوں سے بھرے ہوئے ہیں بگرام ایئربیس میں امریکیوں کی جانب سے قائم کیئے جانے والے جدید ترین ہسپتال سے اس لیے استفادہ نہیں کیا جاسکتا کہ امریکی فوجیوں نے بگرام چھوڑتے وقت مرکزی جنریٹرکو ناکارہ بنادیا تھا.

انہوں نے بتایا کہ اسی طرح کئی آلات کے پرزے نکال کر انہیں بھی ناقابل استعمال بنادیا گیا اس کے علاوہ الیکٹرانک گیٹس کے کی کارڈ بھی امریکی اپنے ساتھ لے گئے تھے. ذرائع نے بتایا کہ امریکا‘برطانیہ سمیت کئی ممالک اپنے زخمی شہریوں کو بہتر طبی سہولتوں کی فراہمی کے لیے ایئرایمبولینس کے ذریعے ہمسایہ ممالک میں منتقل کرنے کے لیے بات چیت کررہے ہیں اس سلسلہ میں کئی مغربی ممالک کی جانب سے پاکستان سے بھی رابط کیا گیا ہے اس کے علاوہ تاجکستان‘ازبکستان سمیت افغانستان کے دیگر ہمسایہ ممالک سے بات چیت جاری ہے اور رات بھر مختلف ملکوں کے راہنما ہاٹ لائنزکے ذریعے ایک دوسرے سے رابطے کرتے رہے ہیں.
ذرائع کا کہنا ہے کہ کابل کے ہسپتالوں میں دو سو سے زائد زخمی ہیں جبکہ مختلف سفارت خانوں میں موجود طبی مراکزمیں زخمیوں کی تعداد کا کوئی اندازہ نہیں ہے کیونکہ امریکا کے علاوہ ابھی تک کسی ملک نے زخمیوں اور ہلاک شدگان کے بارے میں ذرائع ابلاغ کو آگاہ نہیں کیا. ادھر طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے برطانوی نشریاتی ادارے کے اس دعوے کی تردید کی ہے جس میں کہا گیا تھا کہ کابل دھماکوں میں 28طالبان زخمی ہوئے ہیں انہوں نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا ہے کہ بم دھماکوں میں طالبان کو کوئی جانی نقصان نہیں اٹھانا پڑا ہے انہوں نے کہا کہ ہمارا کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ہے یہ واقعہ اس علاقے میں ہوا جو امریکی فورسز کے کنٹرول میں ہے ہم نے امریکا کو یقین دہانی کروائی تھی کہ31اگست تک ہم اس علاقے کو اپنے قبضے میں نہیں لیں ہم نے عہد شکنی نہیں کی لہذا ان خود کش دھماکوں کے لیے امریکی اور نیٹو افواج ذمہ دار ہیں.
ادھر امریکی صدر بائیڈن نے دولت اسلامیہ کے خلاف کارروائی کا حکم دیا ہے تاہم اس بات کی وضاحت نہیں کی گئی کہ امریکا داعش کے خلاف کاروائی کیسے کرئے گا یاد رہے کہ سابق صدر ٹرمپ ے مقابلے میںڈیموکریٹ صدراتی امیدوار اور سابق وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن پر الزام ہے کہ انہوں نے داعش نامی دہشت گردی تنظیم بنوانے میں اہم کردار اداکیا اور افغانستان میں بھی امریکا داعش کو طالبان کے خلاف جنگی حکمت عملی کے طور پر لے کر آیا تھا.
دوسری جانب کابل خودکش دھماکوں کے بعد آج صبح سے پاک افغان باڈر پر موجود سرحدی گزرگاہوں پر غیرمعمولی رش دیکھا جارہا ہے ہزاروں افغان شہری چمن اور طورخم باڈر پر بیٹھے ہیں مگر پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ سفری دستاویزات کے بغیر کسی کو بھی سرحد پار کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی بلوچستان کے سرحدی ضلع چمن کے حکام کا کہناہے کہ افغان دستاویز ”تذکرہ‘ ‘پر آنے والے افغان شہری صرف چمن اور قلعہ عبد اللہ تک آ سکتے ہیں اور اگر کوئی ان دو اضلاع سے باہر جانے کی کوشش کرے گا تو ان کے خلاف کارروائی ہوگی.
افغانستان کے صوبہ قندھار سے متصل چمن کے ڈپٹی کمشنر جمعہ دادمندوخیل نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ افغان شہری جو افغانستان سے باب دوستی کے راستے افغان دستاویز تذکرہ کے ذریعے پاکستان آتے ہیں انہیں صرف چمن اور قلعہ عبداللہ کے حدود تک آنے کی اجازت ہے انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ سابقہ افغان سرحدی حکام کے ساتھ ماضی میں طے ہواتھا، جس میں صرف سپین بولدک کا تذکرہ رکھنے والے چمن یا ضلع قلعہ عبداللہ کے حدود تک آ سکتے تھے.
ڈپٹی کمشنر کا کہنا ہے کہ افغانستان کے دیگر شہروں کے لوگوں کو یہ سہولت میسر نہیں ہوگی انہوں نے کہا کہ اب بھی اسی معاہدے پر عملدرآمد کیا جا رہا ہے اور وہ افغان شہری جو اس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کوئٹہ جانے کی کوشش کرتے ہیں انہیں کوئٹہ اور چمن کے درمیان مختلف چیک پوسٹوں سے گرفتار کیا جائے گاان کا کہنا تھا کہ خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف مقدمہ کر کے ان کو واپس افغانستان بھیج دیا جائے گا.
دریں اثناءکراچی میں افغانستان سے آنے والے دو ہزار کی رہائش کا انتظام کیا جا رہا ہے جو آنے والے ایک سے دو روز میں بذریعہ ہوائی جہاز کراچی ایئرپورٹ پہنچیں گے. کمشنر کراچی کی جانب سے ڈی جی رینجرز، ایف آئی اے سمیت پولیس، محکمہ صحت اور کے الیکٹرک کو ایک لیٹر تحریر کیا گیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ 26 اگست کو ففتھ کور ہیڈ کوارٹر میں چیف آف سٹاف کی زیر صدارت اجلاس میں آگاہ کیا گیا ہے کہ یہ افراد افغانستان سے دوسرے ممالک جانے کے لیے کراچی میں قیام کریں گے خط کے مطابق ڈپٹی کمشنر کراچی کو ہدایت کی گئی ہے کہ جناح انٹرنینشل ایئرپورٹ کے قریب ہنگامی بنیادوں پر ان افغان اور غیر ملکی شہریوں کی ٹرانسپورٹ، رہائش اور سیکیورٹی کا انتظام کیا جائے.
لیٹر کے مطابق تین جگہوں کی نشاندہی کی گئی ہے جس میں ایئرپورٹ کے نزدیک ہوٹلز، رمادا ہوٹل اور ایئرپورٹ کے قریب واقع مارکیز شامل ہیں خط میں محکمہ صحت کو گزارش کی گئی ہے کہ وہ موبائل صحت یونٹ، ایمبولینس اور طبی عملے کی موجودگی کو یقینی بنائے جبکہ کے الیکٹرک کو کہا گیا ہے کہ وہ بجلی کی بلا تعطل فراہمی کو یقینی بنائے اسی طرح ایف آئی اے کو ہدایت کی گئی ہے کہ ان ٹرانزٹ مسافروں کے کوائف چیک کریں خط میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ ان سہولیات کے اخراجات یہ افراد خود ادا کریں گے.
ادھر مغربی ذرائع ابلاغ کابل ہوائے اڈے پر حملے کے بعد طالبان کو ایئرپورٹ کے احاطے کی سکیورٹی سونپنے پر امریکہ کو کڑی تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں امریکی صدر جو بایئڈن نے صحافیوں سے گفتگو میں اس فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ یہ بھروسے کی بات نہیں ہے، یہ باہمی فائدے کا معاملہ ہے تاہم اس بات کا ابھی تک کوئی ثبوت میرے سامنے نہیں رکھا گیا کہ طالبان اور دولت اسلامیہ خراسان کے درمیان کوئی گٹھ جوڑ ہے.
امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی بریفنگ میں وزیر خارجہ اینتھونی بلنکن سے پوچھا گیا کہ امریکہ طالبان کے مطالبات کو کیوں اہمیت دے رہی ہے خاص طور پر ایک ایسے وقت میں جب کوئی عالمی حمایت یافتہ حکومت بھی نہیں بنی جس پر امریکی وزیرخارجہ نے کہاکہ ہمیں یہ بات پسند آئے یا نہ آئے لیکن طالبان پاور میں ہیں زیادہ تر ملک اور کابل تو خاص طور پر ان کے قبضے میں ہے اور ملک چھوڑنے کے خواہشمند تمام لوگوں کو نکالنے کے لیے طالبان کے ساتھ کام کرنا بہت اہم ہے.
انہوں نے بتایا کہ امریکہ انخلا کے بعد کے صورتحال پر طالبان کے ساتھ مذاکرات کر رہا ہے ادھر نیٹو کے مطابق افغانستان میں موجود بیشتر غیر ملکی سفارت کاروں اور دیگر عملے سمیت عیڑ ملکی شہریوں کو نکالنے کا کام 30 اگست تک مکمل ہونے کی توقع ہے امریکہ نے اب تک ایک لاکھ سے زیادہ لوگوں کو کابل سے نکالا ہے جو کہ تاریخ میں اپنی نویت کا سب ائیرلفٹ آپریشن ہے.
دنیا کے تقریباً 100 ممالک اس انخلا مشن میں حصہ لے رہے ہیں اور پانچ ہزار سے زیادہ فوجی تعینات ہیں واضح رہے کہ افغانستان میں تقریباً 1500 امریکہ شہری، 400 برطانوی اور 200 جرمن شہری جب بھی موجود ہیں اگرچہ افغانستان سے انخلا کا عمل جاری رہے گا تاہم کابل اور واشنگٹن میں امریکی حکام نے مزید حملوں کا الرٹ جاری کیا ہے‘امریکی سنٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل فرینک مکنزی کے مطابق داعش کی جانب سے راکٹ حملوں یا کار بم کے ذریعے مزید حملے کیے جا سکتے ہیں انہوں نے کہا کہ ہم تیار رہنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں.

یہ بھی پڑھیں

ملائکہ اروڑا کا سابق شوہر ارباز خان کیساتھ فیملی ڈنر، ویڈیو وائرل

ممبئی: بالی ووڈ اداکارہ و ماڈل ملائکہ اروڑا نے اپنے سابق شوہر ارباز خان اور اُن کی …