امان اللہ خان مرحوم کی یاد میں

امان اللہ خان مرحوم کے بارے میں کچھ لکھنے سے قبل احمد فراز کی غزل کا ایک شعر ان کی نظر کہ
تیرے ہوتے ہوئے محفل میں جلاتے ہیں چراغ
لوگ کیا سادہ ہیں کہ سورج کو دیکھاتے ہیں چراغ

امان اللہ خان جیسا فنکار اگلی کئی صدیاں اس روح زمین پر نہیں آئے گا یہ اتنی بڑی حقیقت ہے جتنی بڑی حقیقت یہ ہے کہ امان اللہ اب ہمارے درمیان نہیں ہیں امان اللہ سے میری ملاقات چند سکینڈ پر مشتمل ہے الحمراء آرٹ کونسل کے باہر کیفے ٹیریا میں چند دوستوں کے درمیان بیٹھا تھا کہ میرے ساتھ والی کرسی خالی پڑی تھی اچانک ایک شخص نے میرے قریب آکر کہا کہ ” پاجی اے کرسی خالی اے تے میں لے لواں ” میں نے نظر اٹھا کر دیکھا تو میرے سامنے کامیڈی کنگ اور اسٹیج کا بے تاج بادشاہ امان اللہ مرحوم کھڑے تھے میں اچانک کھڑا ہوا اور کہا آپ حکم کریں میں کرسی اپکی مطلوبہ جگہ پر رکھ دیتا ہوں تو امان اللہ خان نے مسکراتے ہوئے کہا سلامت رہو میں اپنا ” بوجھ ” خود اٹھانے کا عادی ہوں امان اللہ کرسی اٹھا کر چند فرلانگ پر دوسری جگہ جاکر اپنے جاننے والے احباب میں بیٹھ گئے یہ میری پہلی اور آخری ملاقات تھی مگر میں کئی روز تک اس شخص کی سادگی اور اسکی اپنا بوجھ خود اٹھانے والی بات سے متاثر ہوئے بغیر نا رہ سکا وقت کی روانی نے اس چند سکینڈ کی ملاقات کو بہت پیچھے چھوڑ دیا اور میں دیار غیر میں آکر مقیم ہوگیا اس دوران امان اللہ خان کبھی اسٹیج ڈرامے میں کبھی کبھار جلوہ افروز ہوتے اور کبھی کسی ٹی وی شو کی زینت بن کر اس کو چار چاند لگاتے دیکھائی دیتے میری اس تحریر کی اگلی زیادہ تر باتیں مختلف ٹی وی شوز کے حوالوں سے مبنی ہیں جن میں ان کے ساتھی فنکاروں اور شاگردوں کی جانب سے جو ” گواہی ” دی جا رہی ہے تو ان کو بیان کرکے میں اس عظیم فنکار کو خراج عقیدت اور خراج تحسین پیش کرنے کی کوشش کروں گا.

امان اللہ خان کو زیادہ تر لوگ ایک کامیڈین کے روپ میں ہی جانتے تھے مگر اس فنکار میں جو ایک ” انسان ” چھپا تھا اس جیسی انسانیت بہت ہی کم لوگوں میں دیکھنے اور سننے کو مل رہی ہے داتا دربار پر گولیاں ٹافیاں بیچ کر گھر کا نظام چلانے والے امان اللہ کی زندگی حادثات اور زندگی کے تلخ حقائق سے بھری پڑی ہے لوگوں کی ٹھوکروں اور زمانے کی ستم ظریفی نے امان اللہ کو وہ طاقت اور ہنر بخشا جو صرف امان اللہ کے حصے میں ہی آیا اور جو کسی اور کے مقدر میں شاید ہی کبھی آسکے ایک ٹی وی شو کے مطابق امان اللہ نے غریبی کا وہ عروج بھی دیکھا کہ گھر کے باہر مٹروں کے چھلکے پڑے تھے جھنیں پکا کر امان اللہ نے اپنی والدہ کے ہمراہ اپنے دیگر بہن بھائیوں کا پیٹ بھرا اور سکھ کی نیند سو گیا اللہ تعالی امان اللہ کا جتنا امتحان لے رہے تھے اس میں امان اللہ خان سرخرو ہو رہے تھے اور دکھوں اور تکلیفوں کو سینے سے لگائے بارگاہ الٰہی میں ” شکر ” کا کلمہ پڑھ کر خالق کائنات کو راضی کرتے جا رہے تھے پھر کیوں نا اللہ تعالیٰ اس شخص کا ہاتھ پکڑتے اللہ تعالی نے امان اللہ کو ایک نئی راہ دیکھائی جس پہ چل کر انہیں پاکستان کا ہی نہیں اردو اور پنجابی جاننے والے دنیا بھر کے لوگوں کے دلوں کا راج دلارا بنانا تھا.

امان اللہ نے اسٹیج پر معاشرے میں پھیلی مختلف چیزوں کو مزاح کی شکل میں ایسے لوگوں کے سامنے پیش کیا جو اس سے قبل کسی کو اعزاز نہیں ملا تھا امان اللہ کا سفر کچھ یوں بھی کامیابی کی جانب بڑھتا چلا گیا کہ انہوں نے اپنے سنئیرز کو وہ عزت دی جس کے وہ لائق تھے امان اللہ خان نے جو کچھ معاشرے سے سیکھا تھا اس کو مزید نکھارنے کے لئے ان تمام بڑے فنکاروں کی خدمت کرکے فنکاری کے وہ جوہر سیکھے جن کو حاصل کرنے کے بعد امان اللہ اسٹیج کا بے تاج بادشاہ بھی بنا اور ایک لیجنڈ اداکار کی حیثیت بھی اختیار کر گئے.

جونئیر ساتھی فنکاروں کے مطابق امان اللہ خان کے اندر جو صفات تھیں وہ کسی عام انسان میں نہیں تھیں جونئیر کی حوصلہ افزائی کرنے سے لیکر ان کے دکھ اور خوشی میں ساتھ دینے اور پھر ان کو آگے بڑھانے جیسے عوامل صرف ان کی ذات کا خاصہ تھے سادہ اور حلیم طبعیت کی شخصیت سے مالا مال امان اللہ اب اس دنیا سے نکل کر اللہ کی امان میں جاچکے ہیں مگر انکی اسٹیج کی زندگی کے علاوہ انکی نجی زندگی کے وہ ہزاروں پل ہمیشہ یادگار رہیں گے اور لوگوں کے چہروں پر ہنسی کے علاوہ سوچ اور فکر بھی دیتے رہیں گے کہ کامیابی کی سیڑھی کیسے چڑھ کر منزل مقصود تک کیسے پہنچا جاتا ہے، اللہ، امان اللہ خان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے آمین

۔

یہ بھی پڑھیں

ملائکہ اروڑا کا سابق شوہر ارباز خان کیساتھ فیملی ڈنر، ویڈیو وائرل

ممبئی: بالی ووڈ اداکارہ و ماڈل ملائکہ اروڑا نے اپنے سابق شوہر ارباز خان اور اُن کی …