کابل سے کشمیر تک، محمد شفیق چوہدری

(میڈیا92نیوز آن لائن)
پاکستان کی خارجہ پالیسی میں جن امور کو اہمیت حاصل ہے ان میں سرفہرست کشمیر اور افغانستان ہیں ۔ یہ انتہای حساس نوعیت کے ہیں اور ہمہ وقت عالمی میڈیا کی زینت بنتے رھتے ہیں۔ ان امور پر پاکستان کی پالیسی میں کم و بیش تسلسل رہا ہے بعض و اوقات حالات کے پیش نذر حکمت عملی میں تبدیلیاں ضرور روح پذیر ہوتی رہیں۔ کشمیر ہماری شہہ رگ اور افغانستان تعزویراتی گہرای کا محورومرکز رہا۔ ان امور پر ہماری تمام تر توانیاں مجموعی طور پر سب سے سے زیادہ صر ف ہوتی ہیں۔ ہماری شہہ رگ آج بھی دشمن کے نرغے میں اور تعزویراتی گہرای کو باحالت مجبوری ہم ترک کر چکے۔

پاکستان جنوبی ایشیاء میں طاقت میں توازن برقرار رکھنے کیلئے انتہائی اہمیت کا حامل ایک اہم ملک ہے۔ جغرافیائی طور اس کی اہمیت اس کو مزید اہم بنا دیتی ہے۔ بحیرہ عرب کے سنگم پر توانایٰ کی آبی راہداری آب ہرمز اسکی دسترس میں ، سینٹرل ایشیا اور چاٰینا کے لیے گرم پانیوں تک رسای کے لیے آسان اور تیز ترین زریعہ۔اس کے عین مغرب میں افغانستان جسے ایشیا کا دل کہا جاتا ہے۔ پاکستان اور افغانستان میں بے شمار اقدار مشترک ہیں لیکن طاقت کے مہحرکات اُتنے ہی محتلف ہیں۔ پاکستان برطانوی نو آبادیاتی نظام کا حصہ رہا ہے اس لیے انتہائی منظم نظام ورثہ میں ملا جبکہ افغانستان کبھی بھی کسی حملہ آور کیلئے موزوں ثابت نہیں ہوا۔ تاریخ دوبارہ آج اسی موڑ پر امریکہ افغانستان سے سفر راہت باندھنے کو ہے۔ امریکہ طالبان امن معاہد ہ ہمیں موقع فراہم کرتا ہے کہ ہم اپنی ماضی کی غلطیو ں کا ازالہ کر سکیں۔ پاکستان کی افغانستان کے حوالے سے بہت ساری کھٹی میٹھی یادیں ہیں جو کہ تاریخ کا حصہ ہیں۔ سویت یونین کے انویژن(Invasion) کے بعد پاکستان نے بڑے بھائی کا کردار اور اپنے افغان بھائیوں کا اپنی حیثیت سے بڑھ کر خیال رکھا۔ جہاں تک کہ سویت یونین سے آزادی کے لیے مجاہداول کا کردار بخوبی اور بڑے احسن طریقے سے نبھایا۔ بدقسمتی سے سویت یونین کے انخلا کے بعدبڑا بھایٰ چھوٹے بھائیوں کی جنگ میں فریق بن گیا۔ اقتدار کی اس جنگ میں دوستوں کو دشمنوں کی صفہوں میں لا کھڑا کیا۔

کابل میں دوست حکومت کے قیام کے لیے پاکستان اور بھارت روز اول سے ہی اس دوڑ میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش میں لگےرہے۔ پاکستان کی انتہائی دلی خواہش رہی کہ افغانستان کے ساتھ اپنے تعلق کو دوستی سے زیادہ ایک برادر ملک کے طور پروان چڑھائے۔ اس کوشش میں زیادہ کامیابی تو حاصل نہ ہوئی بلکہ ہمیشہ مخاصمت کا ہی سامنا رہا۔ دونوں ممالک کے درمیان طویل سرحد ڈیورنڈ لائن ، اعتمادمیں فقدان کا بنیادی سبب رہی۔تعلقات کا یہ اتار چڑھاؤ نصف صدی سے زائد عرصے پر محیط ہے۔ فراری کیمپس اور کابل میں اسلام آباد سفارت خانے کا گھیراؤ جلاؤ اسکی ایک جھلک ہیں۔

دوسری طرف افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کیلئے پاکستان نے ہمیشہ فراخ دلانہ کردار ادا کیااور اس کی وجہ سےپاکستان کی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان برداشت کرنا پڑا۔ بلکہ شاید یہ کہنا درست ہوگا کہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی آڈ میں پاکستان کی لوکل انڈسٹری کو ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑا۔ ہماری ایکسپورٹ میں سست راوی کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ ہم مطلوبہ معیارکی ادارہ جاتی صلاہیت ، تکنیک اور تجربہ نہہیں حاصل کر سکے جس کا بنیادی جز مارکیٹ ہم آہنگ نمو نہ ہونا تھا بلا آخر ڈیوٹی فری اشیاء کی فروانی نے لوکل انڈسٹری کو تالہ لگا دیا۔ باوجوداسکے کہ خام مال کی سب سے بڑی مارکیٹ تھی۔ تعزویراتی گہرای کی پالیسی کی بٹرھی بھاری قیمت ادا کرنا پڑھی۔ ہندوستان ہمیشہ سے پاکستان کی تعزویراتی گہرای کی پالیسی کےخاتمہ اور وسطی ایشیائی ریاستوں تک رسائی محدود کرنے کے ایجینڈ ا پر گامزان رہا ۔ انڈیا، ایران، افغانستان متوازی راہد اری اسی منصوبے کا ایک حصہ تھا۔امریکہ افغان امن معاہدے سے حالات نے پھر سے انگڑای لی ہے ۔توازن اپنے حق میں بدلہ جا سکتا ہے۔ خود کو ہم آہنگ رکھنے کے لیے فوری طور پر سفارتی سطح پر اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ اپنے تعلقات کا ازسر نو جائزہ لینا ہوگا۔ ہمیں باہمی احترام، مضبوط اقتصادی تعلق اور جنوئن پارٹنر شپ کی بنیاد رکھنے کی ضرورت ہے

کشمیر میں آرٹیکل 35A اور 270 کی تنسیخ کے بعدعملا زندگی معطل ہے۔ بلکہ شہریت ترمیمی بل نے مسلمانوں پر زندگی کے تمام تر دروازے بند کر دیے ۔ ہندوستان میں بسنے والے مسلمانوں کو اب شدت سے اس بات کا احساس ہے کہ دو قومی نذریے کی بنیاد ہی ان کی بقا کی اساس ہے۔ جں بات کا ادراک قاید عزیم کو تقریبأ ایک صدی قبل تھا ٓج کے حالات نے اس پرمہر تصدیق لگا دی۔ جس بری طرح سے دہلی میں مسلمان نوجوانوں، بوڑھوں اور بچو ں کے خون سے ہولی کھیلی گی مساجد و مدارس کی تضہیک کی گی یہ جنوبی ایشیا کے نقشے میں تبدیلی کا مذہر ہے۔ تاریخ کا جبر ہے کہ تاریخ خود کو دہرانے کو ہے فقظ انتظارقاید ثانی کا ہے۔ اس وقت ہندوستاں کے مظلوم اور محکوم مسلمان ہماری طرف دیکھ رہے ہیں۔ ہمیں انہہیں مایوس نہی بلکہ ان کی آواز بننا چاہیے۔

ہم ہمیشہ مظلوموں کے لیے آواز اٹھاتے آے ہیں ۔ ان کو اپنے مسقبل کا تعین کرنے میں مکمل رھنمای فراہم کرنی چاہیے۔ ماضی میں بدقسمتی سے ہم ہمہیشہ انہیں مرہم پٹی کے لیے کانگرس کی جھولی میں ڈال دیتے ہیں اور وہ انہہیں بڑی خوبصورتی سے اقتدار کی سیڑھی کےطور پر استعمال کرتی ہے۔ اب ہمیں دو قومی نظریے کی اساس کی بنیاد پر ہی ان کے لیے راہ ہموار کرنی چاہیے۔ شاید شہ رگ کی آزادی بھی اسی طرح سے ممکن ہو سکے۔

یہ بھی پڑھیں

ملائکہ اروڑا کا سابق شوہر ارباز خان کیساتھ فیملی ڈنر، ویڈیو وائرل

ممبئی: بالی ووڈ اداکارہ و ماڈل ملائکہ اروڑا نے اپنے سابق شوہر ارباز خان اور اُن کی …