اسلام آباد ہائیکورٹ نے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے اداروں کے خاتمے پرسوالات اٹھا دیئے

اسلام آباد(میڈیا 92نیوز آن لائن)ہائی کورٹ نے حکومت کی جانب سے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے اداروں کے خاتمے پر سنجیدہ سوالات اٹھائے ہیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے حکومت کی جانب سے جاری کئے گئے 8 آرڈیننسز کے خلاف مسلم لیگ (ن) کی درخواست پر سماعت کی۔

مسلم لیگ (ن) کے محسن شاہ نواز رانجھا نے کہا کہ صدر مملکت کو صرف جنگی حالات میں آرڈیننس جاری کرنے کا اختیار ہے، جیسے کورونا وائرس کے حوالے سے معاملہ ابھی موجود ہے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر نے کہا کہ ایسا نہیں ہے۔

ضرورپڑھیں:ن لیگ کا مارچ میں حکومت کیخلاف تحریک چلانے کا اعلان

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے (پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹیل کونسل) کا نام لئے بغیر آرڈیننس کے ذریعے تحلیل کرنے کے حکومتی اقدام پر ریمارکس دیئے، چیف جسٹس نے کہا کہ ایک ریگولیٹری ادارے کو ختم کیا گیا، کیا حکومت آرڈیننس سے ہائی کورٹ کو بھی ختم کر سکتی ہے؟ عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر سے سوال کیا کہ کیا ایکٹ آف پارلیمنٹ کے تحت بنی ہائی کورٹ کو بھی آپ ختم کر سکتے ہیں؟ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 89 کے مطابق تو آرڈیننس کی گنجائش صرف جنگ کی حالت میں ہے۔ آرڈیننس کے حوالے سے کیا ایگزیکٹو کو یہ اختیار نارمل حالات حاصل ہے؟

چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیئے کہ بہت اہمیت کا حامل معاملہ ہے۔ عدالت نے آئندہ سماعت پر عدالتی معاونین بابر اعوان، رضا ربانی اور عابد منٹو سے بھی دلائل طلب کر لیے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

ملائکہ اروڑا کا سابق شوہر ارباز خان کیساتھ فیملی ڈنر، ویڈیو وائرل

ممبئی: بالی ووڈ اداکارہ و ماڈل ملائکہ اروڑا نے اپنے سابق شوہر ارباز خان اور اُن کی …