ن لیگ اور پی ٹی آئی میں اتحاد ہوگیا…………مزید جانیئے اس خبر میں

اسلام آباد (میڈیا 92نیوز آن لائن)
پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ نون سے تعلق رکھنے والے کم سے کم پانچ سینیٹرز ایم پیز کی تنخواہوں، الاﺅنسز اور مراعات میں اضافے کیلئے قوتوں کے ساتھ مل گئے ہیں۔ تقریباً چھ سینیٹرز ہیں جو ایوان بالا میں بل پیش کر رہے ہیں۔ان میں سے دو ایم پیز نصیب اللہ بازئی اور سجاد حسن طوری کا تعلق تحریک انصاف سے ہے جبکہ مسلم لیگ نون کے تین سینیٹرز دلاور خان، یعقوب نصر اور شمیم آفریدی اور نیشنل پارٹی کے ایم پی اشوک کمار بھی بل پیش کرنے والوں میں شامل ہیں۔

نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق اس بل کی پارلیمانی منظوری کچھ عرصہ قبل پنجاب اسمبلی میں اسی طرح کی قانون سازی کو راستہ دینے کا کھیل دوبارہ سے دیکھے گی جب تمام پارلیمانی جماعتیں ایک ہی صفحے پر آگئی تھیں۔پچھلے قانون نے شدید تنازع کھڑا کردیا تھا جس سے وزیر اعظم عمران خان نے مشتعل ہوکر پنجاب حکومت کو اسے واپس لینے کا حکم دیا تھا لیکن بالآخر اس پر چند ماہ بعد معمولی تبدیلیوں کے ساتھ خاموشی سے عملدرآمد ہوگیا تھا جیساکہ دھول بیٹھ گئی تھی اور مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہوجانا جیسے نئے مسائل نے سیاسی منظر پر غلبہ پالیا تھا۔

دونوں معاملات میں پوری طرح سے مماثلتیں تھیں۔ فوری تجویز ایوان بالا میں بطور بل پی ٹی آئی، نون لیگ اور نیشنل پارٹی کے سینیٹرز کی جانب سے پیش کی جائے گی جیسا کہ پنجاب اسمبلی میں کیا گیا تھا۔وفاقی حکمران اتحاد نے اس قانون سازی کو باضابطہ طور پر اسپانسر نہیں کیا ہے جیسا کہ تحریک انصاف کی اتحادی حکومت نے پنجاب میں کیا تھا۔ تحریک انصاف، مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے پنجاب اسمبلی کے پانچ ارکان نے 2019 میں نجی ارکانوں کا بل اسپانسر کیا تھا۔

پیر کی نشست کے سرکاری طور پر جاری کئے گئے ایجنڈے کے مطابق اب چھ سینیٹرز نجی ارکانوں کے بل کے طور پر سینیٹ میں مجوزہ قانون سازی پیش کر رہے ہیں۔ پنجاب بل منٹوں میں متفقہ طور پر منظور ہوگیا تھا۔سینیٹ میں موجودہ قانون سازی میں کیا ہوگا وہ سامنے آنا باقی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس بل کو آگے بڑھانے والے تمام افراد دو چھوٹے صوبوں یعنی خیبر پختوانخوا اور بلوچستان کی نمائندگی کرتے ہیں۔

ان میں سے کوئی بھی پنجاب اور سندھ سے نہیں۔ پنجاب بل کے معاملے میں تمام اہم پارلیمانی جماعتوں نے صوبائی اسمبلی میں اسے پیش کرنے سے قبل اس کی متفقہ منظوری کا فیصلہ کرلیا تھا۔وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار بھی ساتھ تھے جیسا کہ ان کی اپنی تنخواہ، الاﺅنسز اور مراعات میں بڑا اضافہ ہوگیا تھا۔ پیپلز پارٹی نے موجودہ بل کو نامنظور کردیا ہے اور اعلان کیا کہ وہ اس کے خلاف جائے گی۔

عددی منظرنامے سے لگتا ہے کہ اگر تحریک انصاف، نون لیگ اور نیشنل پارٹی اور چھوٹی جماعتوں نے پیپلز پارٹی کی مخالفت کے باوجود اسے ووٹ دیا تو مجوزہ قانون سازی سینیٹ سے سادہ اکثریت سے با آسانی کلیئر ہوجائے گی۔

اس بل پر تحریک انصاف میں رائے منقسم ہے۔ ایک جانب اس کے چیف وھپ اسے پیش کرنے والوں کے درمیان ہیں جبکہ دوسری جانب اس کے رہنما جیسے کہ اسپیکر اسد قیصر، وزیر اعظم کی خصوصی معاون فردوس عاشق اعوان، وفاقی وزیر اسد عمر اور فیصل جاوید نے کھلم کھلا اس بل پر اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے جن میں سے ایک کا دعویٰ ہے کہ ان کی جماعت اور وزیر اعظم عمران خان کی اعلیٰ ترجیح افراد خصوصاً معاشرے کا غریب طبقہ ہے۔

عوامی نمائندوں کو ان کے نقش قدم پر چلنا چاہئے جیساکہ انہوں نے چیف ایگزیکٹو کے دفتر میں سخت کٹوتی کے ذریعے ایک مثال بنائی ہے۔تحریک انصاف کے رہنماشبلی فراز نے کھلم کھلا اس بل کی حمایت کا عزم کیا ہے اور کہا ہے کہ معذرت خواہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔

انہوں نے دلیل دی کہ بلوچستان کے قانون سازوں کی تنخواہیں ان ایم پیز سے تقریباً تین گنا زیادہ ہیں۔ انہوں نےکہا کہ وہ کئی وفاقی قانون سازوں کو جانتے ہیں جن کی واحد ذریعہ آمدنی ان کی تنخواہ ہے اور ان کیلئے گزر بسر کرنا مشکل ہوتا ہے۔اس بل کی مخالفت کے بغیر نون لیگ کے سینیٹر مشاہد اللہ کی رائے تھی کہ تمام عوامی عہدہ رکھنے والوں کی تنخواہیں تبدیل کئے جانے کی ضرورت ہے۔

تنخواہ کا ڈھانچہ کچھ اصولوں پر مبنی ہونا ضروری ہے یعنی وزیر اعظم ، سینیٹ کے چیئرمین اور قومی اسمبلی کے اسپیکر کے بعد ریاست کے سربراہ کو دوسروں کے مقابلے میں زیادہ تنخواہ ملنی چاہئے۔اس وقت صدر پاکستان ، وزیر اعظم ، وزراءاور ایم پیز کی تنخواہیں اعلیٰ عدالت کے ججوں کی نسبت بہت کم ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

ملائکہ اروڑا کا سابق شوہر ارباز خان کیساتھ فیملی ڈنر، ویڈیو وائرل

ممبئی: بالی ووڈ اداکارہ و ماڈل ملائکہ اروڑا نے اپنے سابق شوہر ارباز خان اور اُن کی …