بھارتی سپریم کورٹ کا بابری مسجد کی جگہ مندر تعمیر کرنے کا حکم

بھارت (میڈیا92نیوز آن لائن)بھارتی سپریم کورٹ نے بابری مسجد کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے مسجد کی زمین ہندوؤں کے حوالے کرتے ہوئے مرکزی حکومت کو مندر تعمیر کرنے کا حکم دیا ہے۔بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رانجن گنگوئی کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ بابری مسجد کیس کا فیصلہ سنا رہا ہے، پانچ رکنی بنچ میں مسلمان جج ایس عبدالنذیر بھی شامل ہیں۔

چیف جسٹس رانجن گنگوئی کیس کا فیصلہ سنا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بابری مسجد کیس کا فیصلہ متفقہ ہے۔’بابری مسجد کی جگہ مندر نہ بنایا تو مودی سرکار بھی نہیں رہے گی‘سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ہندو ایودھیا کو رام کی جنم بھومی جب کہ مسلمان اس جگہ کو بابری مسجد کہتے ہیں۔بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلے میں کہنا ہے کہ عدالت کے لیے مناسب نہیں کہ وہ مذہب پر بات کرے، عبادت گاہوں کے مقام سے متعلق ایکٹ تمام مذہبی کمیونٹیز کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ مسجد کی جگہ پر رام کی جنم بھومی تھی اور بابری مسجد کے نیچے اسلامی تعمیرات نہیں تھیں، بابری مسجد کو خالی پلاٹ پر تعمیر نہیں ہندو اسٹرکچر پر تعمیر کی گئی۔بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق مطابق ریونیو ریکارڈ کے مطابق زمین سرکاری تھی جب کہ بابری مسجد کی شہادت قانون کی خلاف ورزی ہے۔چیف جسٹس رانجن گنگوئی نے بابری مسجد کی زمین ہندوؤں کے حوالے کرتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کو ایودھیا میں متبادل جگہ دی جائے، سنی وقف بورڈ کو 5 ایکڑ متبادل زمین دی جائے۔

بھارتی سپریم کورٹ نے متنازع 2 اعشاریہ 77 ایکٹر زمین مرکزی حکومت کے حوالے کرتے ہوئے تین ماہ میں ٹرسٹ قائم کرنے کا حکم دیا ہے۔بھارتی میڈیا کے مطابق اتر پردیش میں تمام اسکول، کالج اور تعلیمی ادارے 11 نومبر تک بند کرنے کا اعلان کیا گیا ہے اور ایودھیا سمیت پورے بھارت میں سیکیورٹی انتہائی سخت کر دی گئی ہے۔

خیال رہے کہ سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے الہ آباد ہائی کورٹ کے ستمبر 2010 کے فیصلے کے خلاف دائر 14 اپیلوں پر سماعت کی جس میں سنّی وقف بورڈ، نرموہی اکھاڑہ اور رام لالہ کے درمیان ایودھیا میں 2.77 ایکڑ متنازع زمین کو برابر تقسیم کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔1528ء میں مغل دور حکومت میں بھارت کے موجودہ شہر ایودھیا میں بابری مسجد تعمیر کی گئی جس کے حوالے سے ہندو دعویٰ کرتے ہیں کہ اس مقام پر رام کا جنم ہوا تھا اور یہاں مسجد سے قبل مندر تھا۔

برصغیر کی تقسیم تک معاملہ یوں ہی رہا، اس دوران بابری مسجد کے مسئلے پر ہندو مسلم تنازعات ہوتے رہے اور تاج برطانیہ نے مسئلے کے حل کیلئے مسجد کے اندرونی حصے کو مسلمانوں اور بیرونی حصے کو ہندوؤں کے حوالے کرتے ہوئے معاملے کو دبا دیا۔1992 میں ہندو انتہا پسند پورے بھارت سے ایودھیا میں جمع ہوئے اور ہزاروں سیکیورٹی اہلکاروں کی موجودگی میں 6 دسمبر کو سولہویں صدی کی یادگار بابری مسجد کو شہید کر دیا۔حکومت نے مسلم ہندو فسادات کے باعث مسجد کو متنازع جگہ قرار دیتے ہوئے دروازوں کو تالے لگا دیے، جس کے بعد معاملے کے حل کیلئے کئی مذاکراتی دور ہوئے لیکن آج تک کوئی نتیجہ نہ نکل سکا۔

یہ بھی پڑھیں

جینیات سے وابستہ تناؤ ہارٹ اٹیک کا خطرہ زیادہ بڑھا دیتا ہے

بوسٹن: حال ہی میں ہونے والے ایک مطالعے سے پتہ چلا ہے کہ جینیاتی طور پر …