خون آشام باب آخر کب بند ہوں گے؟(امتیاز عالم)

(میڈیا92لاہور)

آج 16دسمبر 1971کو بیتے 47برس ہو چکے جب سقوطِ ڈھاکہ ہوا اور بنگلہ دیش وجود میں آیا۔ لیکن خون کے دھبے ہیں کہ کتنی ہی برساتوں کے بعد بھی دھلنے کو نہیں۔ خون آشام باب، متحارب بیانیے اور تاریخی المیے ہیں کہ بند (closure)ہونے کو نہیں۔ قتل و غارت گری، مکتی باہنی کا اگرتلہ سے جنگِ آزادی اور بنگلہ دیش کی جلاوطن حکومت کا اعلان، خوفناک خانہ جنگی، الشمس اور البدر کا جہاد، ہر محاذ پر پیش قدمیوں کی مثبت خبروں اور پھر پلٹن میدان میں ہتھیار ڈالنے کے اینٹی کلائمیکس کے مناظر شب بھر آنکھوں کے سامنے گھومتے رہے اور دل میں خون کے آنسو پھر سے اُمڈ آئے۔ جنرل یحییٰ خان اور اس کے ٹولے کا اقتدار میں رہنے پر اصرار، ذوالفقار علی بھٹو کی واپسی اور مروج مارشل لا کے تحت بطور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر حلف برداری، شملہ معاہدہ، 93ہزار فوجیوں کی بھارتی جنگی قید خانوں سے رہائی، مغربی پاکستان کے مفتوحہ علاقوں کی واپسی، بنگلہ بندھو شیخ مجیب الرحمان کی رہائی، نیا پاکستان، 1973کا آئین، ’’بنگلہ دیش نامنظور‘‘ کی تحریک، بہاریوں کی حالتِ زار، لاہور میں اسلامی کانفرنس میں شیخ مجیب الرحمان کی شرکت، بلوچستان کی مینگل حکومت کا خاتمہ اور فوج کشی، شیخ مجیب الرحمان کا قتل اور ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی، بنگلہ دیش اور پاکستان میں پھر سے مارشل لاز کا راج اور آمریتوں کا دونوں سابقہ بازوئوں میں راج، جمہوریت کی بحالی کی لمبی تحریکیں، جمہوری وقفے اور دونوں ملکوں میں ہر دو سیاسی جماعتوں کی محاذ آرائیاں، انتخابی دھاندلیوں کے الزامات، بنگلہ دیش میں جنگی جرائم میں پھانسی کی سزائوں کے سلسلے، دہشت گردی کے عفریت، مقبوضہ کشمیر میں مقامی انتخابات کا موثر بائیکاٹ (جیسا کہ یحییٰ خان کے مشرقی پاکستان میں ضمنی انتخابات کا بائیکاٹ)، نہتے کشمیریوں پہ بھارتی فوج کے ناقابلِ بیان مظالم اور بلوچستان سے آنے والی بُری خبریں۔ آخر کب یہ خون آشام باب بند ہوں گے اور تاریخ سے وہ سبق حاصل ہوں گے جنہیں صحیح طور پر حاصل کیے بنا یہ تلخ باب بند ہونے سے رہے۔

مجھے وہ وقت یاد ہے جب مشرقی پاکستان میں تاریخ کا بدترین سائیکلون آیا تھا اور دو لاکھ کے لگ بھگ بنگالی بھائی اُس میں بہہ گئے تھے اور ہم نے لاہور میں پنجاب یونیورسٹی کے در و دیوار دیوقامت پوسٹروں سے بھر دیئے تھے کہ اُس آفت میں مشرقی پاکستان کے طوفان زدہ بھائیوں کے لیے انسانی ہمدردی کو اُبھارا جائے اور اُن کی مدد کی جائے۔ لیکن جنرل یحییٰ خان کی حکومت اپنے نشے میں گم رہی۔ جب پاکستان کے پہلے اور آزادانہ انتخابات ہوئے تو دو انتخابی سیلاب آئے اور یہ اُن فالٹ لائنز یا تضادات کے غماز تھے جو فیلڈ مارشل ایوب خان کے عشرہ ترقی کی پیداوار تھے۔ مشرقی پاکستان کے ساتھ نوآبادی کی طرح سلوک کیا گیا تھا اور مغربی پاکستان میں 22سرمایہ دار خاندانوں کی اجارہ داری قائم کی گئی تھی اور لوگ ترقی کی بوندوں کو ترستے رہ گئے تھے۔ مشرقی پاکستان کی 162قومی اسمبلی کی نشستوں پہ شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ نے چھ نکاتی نیم خودمختاری کے ایجنڈے پر مخالفوں کی ضمانتیں ضبط کروا دی تھیں اور مغربی پاکستان میں بھٹو کی پیپلز پارٹی نے سوشلزم کے نعرے پہ 138نشستوں میں 81نشستوں پر بڑے بڑے جغادریوں کے بُرج اُلٹا دیئے تھے۔ یہ تقسیم اتنی مکمل تھی کہ عوامی لیگ کوئی ایک نشست مغربی پاکستان میں جیت سکی اور نہ مشرقی پاکستان میں کوئی ایک سیٹ پیپلز پارٹی کو مل پائی۔ پہلے عام انتخابات کا اہتمام بھی اس خوش فہمی میں کیا گیا تھا کہ کسی ایک پارٹی کو اکثریت ملنے کی توقع نہیں کی جا رہی تھی، جس کی بنیاد پر جنرل یحییٰ خان کو صدر منتخب کروانے کے پلان کو پروان چڑھایا جانا تھا۔ لیکن تاریخ کبھی غاصبوں کے ایما پر چلی ہے کہ تب چلتی۔ سنگین اختلافی آئینی سوالات پر کسی اتفاقِ رائے کے بغیر جب 3مارچ 1971کو نومنتخب اسمبلی کا اجلاس بلایا گیا تو اختلافات کی خلیج بڑھتی چلی گئی۔ مجیب الرحمان اور ذوالفقار علی بھٹو کے درمیان مختلف آئینی تجاویز پہ تبادلہ ہوتا رہا، لیکن بیچ میں یحییٰ خان کی صدارت کی چھچھوندر ایسی پھنسی کہ اتفاقِ رائے کی کوئی راہ نہ نکل پائی اور 25مارچ 1971کو آپریشن ’’سرچ لائٹ‘‘ کا آغاز کر دیا گیا۔ جنرل ٹکا خان نے کمان سنبھالی اور اعلان کیا کہ ’’لوگ نہیں، علاقہ چاہیے‘‘۔ پھر اگلے ساڑھے آٹھ ماہ کیا ہوا، تاریخ ان کے ذکر پہ تو نادم ہے، پر وہ نہیں جنہوں نے اسے زور زبردستی رقم کرنے کی کوشش کی تھی۔ بھارت کے لیے پاکستان کو دو لخت کرنے کا بہترین موقع اپنی نادانیوں اور مدہوشیوں میں یحییٰ خان اور اُس کے ٹولے نے طشتری میں رکھ کر فراہم کر دیا۔یہ دور بڑا خوفناک تھا اور گمراہ کُن بھی۔ مغربی پاکستان میں مکمل سنسر شپ تھی اور ماسوا چند استثنائوں کے زیادہ تر صحافی ’’محبت کے زمزمے‘‘ بہاتے نظر آئے۔ نیشنل عوامی پارٹی اور بائیں بازو کے دو تین گروپس (سی پی پی، شمیم اشرف ملک، عزیز الحق وغیرہ) کے علاوہ کسی نے فوج کشی کیخلاف آواز نہ اُٹھائی۔ دو تین درجن سیاسی کارکنوں نے جب مال روڈ پہ جلوس نکالا تو اُن کے منہ پر تھوکا گیا، گالیاں دی گئیں اور جیل میں ڈال دیا گیا۔ مجھ سمیت کچھ طالب علم رہنمائوں کو اُس وقت کے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل نیازی نے طلب کر کے دھمکایا بھی تھا کیونکہ ہم اپنے بنگالی طالبعلم ساتھیوں کے ساتھ مل کر فوج کشی کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ پھر ہمیں فوجی عدالتوں سے سزائیں ہوئیں اور ہم جیل میں پڑے پاکستان کو بزور طاقت توڑنے کے اس عمل کو قید خانے کی سلاخوں کے پیچھے سے بے بسی سے تکتے رہ گئے۔ جیل میں ہماری ملاقات عوامی لیگ کے مغربی پاکستان کے صدر محترم حامد سرفراز سے ہوئی جنہوں نے اندرون شہر لاہور سے عوامی لیگ کے نشان کشتی پہ قومی اسمبلی کا الیکشن بھی لڑا تھا۔ اُن سے معلوم ہوا کہ بھٹو صاحب اور مجیب الرحمان میں کن کن امور پہ اتفاق ہو چلا تھا، جسے یحییٰ خان نے سبوتاژ کر دیا تھا اور پھر بھٹو صاحب یحییٰ خان کی دیوانگی کے سامنے بے بس ہو کر رہ گئے تھے۔ یہ بھی زمانہ آیا جب دو ملٹری ڈکٹیٹر جنرل ضیا الرحمن اور جنرل ضیا الحق نے سارک کی 1985میں داغ بیل ڈالی۔ کئی دہائیوں کے بعد جب ہم صحافی سافما کے پلیٹ فارم سے اپنی علاقائی کانفرنس کے لیے ڈھاکہ گئے تو پہلے روز بنگالی اخبارات میں ہمارا کالی سرخیوں کیساتھ استقبال کیا گیا۔ ہمارے سافما پاکستان کے وفد میں ارشاد حقانی، ایم بی نقوی، کیپٹن ایاز امیر، سینیٹر مشاہد حسین اور بریگیڈیئر اے آر صدیقی جو مشرقی پاکستان میں آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر رہ چکے تھے بھی شامل تھے۔ ہمارے وفد نے فیصلہ کیا کہ ہم کانفرنس کے افتتاحی اجلاس میں (جس کی مہمانِ خصوصی وزیراعظم خالدہ ضیا تھیں) ایک قرار داد پیش کرینگے جس میں مغربی پاکستان کے اُس وقت کے میڈیا کے ’’مثبت‘‘ لیکن گمراہ کُن اور متعصبانہ کردار اور فوج کشی پہ معذرت کا اظہار کریں گے۔ یہ طے کیا گیا کہ بریگیڈیئر ریٹائرڈ اے آر صدیقی یہ قرار پیش کریں گے، عین وقت پہ صدیقی صاحب کا پیٹ خراب ہونے کے باعث وہ قرارداد جناب ایم بی نقوی نے پیش کی۔ اگلے روز بنگلہ دیش کا تمام پریس تہنیتی جذبات سے بھرا پڑا تھا۔ ایک چھوٹے سے اعتراف نے ماحول بدل دیا اور ہماری کانفرنس بہت کامیاب رہی۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر بنگلہ دیش اور پاکستان باہمی نفرت کے باب کو بند کر پاتے اور تاریخ پھر سے دہراتی نظر نہ آتی۔ کبھی یہاں کبھی وہاں! خون کے دھبے دھلیں کے کتنی برساتوں کے بعد۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)
(بشکریہ جنگ لاہور)

یہ بھی پڑھیں

عوامی خدمت کے حوالے سے سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو پنجاب زاہد اختر زمان کا انقلابی فیصلہ

زاہد اختر زمان نے شہریوں کی عمر بھر کی جمع پونجی سے بنائی گئی جائیداد …