غربت اور بیماری رواں برس بیسوں فنکاروں کو نگل گیا

گزشتہ دنوں خبر سنی مطلوب الرحمن عرف منا لاہوری عرف زکوٹا جن طویل علالت کے بعد انتقال کرگئے ،منا لاہوری عرف زکوٹا جن کے بارے میں کون نہیں جانتا، جولوگوں خاص طور پر بچوں کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیرنے والا فنکار بے بسی اور لاچاری کی تصویر بنے اس دنیا سے چلا گیا، موت تو بہت بے پرواہ ہوتی ہے پوچھتی بھی نہیں کہ کس کو کھاﺅ؟ جس جس کو کھانا ہوتا ہے پہلے ہی چھانٹ لیتی ہے، پھر بنا پوچھے کھچے، خاموشی سے آتی ہے اور اسے لے کرچلتی بنتی ہے۔ موت برحق ہے موت کے آگے کس کا زور ہے لیکن زکوٹا جن کی موت نے ایک سوال پھر سے تازہ کردیا کہ آخر فنکار اتنی کسمپرسی میں کیوں مرتے ؟ پچھلے سال نصرت آرا عرف، بل بتوڑی بھی بے حد غربت میں زندگی کے آخری دن کاٹ کر گزر گئیں، کس کس کا نام گنوایا جائے بے بس فنکاروں کی لسٹ بہت لمبی ہے ہزاروں ادیب شاعر گلوکار موسیقار فنکار اسی طرح علاج معالجے کے لئے مجبور غربت وافلاس کے ہاتھوں پریشان ایڑیاں رگڑ کر رخصت ہوئے۔
محمود خان سٹیج فنکار
کسی بھی قوم کے لئے اس کے فنکار بہترین اثاثہ ہوتے ہیں لیکن ہمارے ملک میں فنکار اس وقت تک ہی اچھا لگتا ہے جب تک وہ شائقین کو تفریح فراہم کرتا رہے لیکن جب وہ بیمار پڑجائے تو اسے کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔ فلم ٹی وی اور سٹیج کا فنکارمحمود خان اس نام کون کوئی نہیں جانتا۔ انہوںنے اپنی بہترین اداکاری کی بدولت اپنے چاہنے والوں سے پذیرائی حاصل کی۔ انہوںنے اپنے فنی کیرئیر کا آغاز فلم سے کیا لیکن انہیں شہرت تھیٹر سے ملی۔ انہوں نے زندگی کا ایک طویل حصہ لوگوں کو تفریح پہنچانے میں گزارا۔ ان کی زندگی کے بہترین ڈراموں میں”راہیں“ ڈرامہ شامل ہے جس میں انہوں نے ایک بھانڈ کا کردار ادا کیا جو ان کی پہچان بن گیا۔ سخت بیماری کی حالت میں انہوں نے بے پناہ مشکلات کا سامنا کیا بیماری کی وجہ سے وہ کام جاری نہ رکھ سکے جس کی وجہ سے انہیں شدید مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور ایک وقت ایسا آیا کہ مالک مکان کو گھر کا کرایہ ادا نہ کرنے کی وجہ سے انہیں گھر خالی کرنا پڑا اوروہ اپنا سامان لے کر پریس کلب کے سامنے بیٹھ گئے وہ آخری دم تک مطالبہ کرتے رہے مجھے ایک گھر دیا جائے ان کا کہنا تھا کہ میں دوائی اور کھانے کہ بنا رہ سکتا ہوں مگر مجھے اور میرے بچوں کو سر چھپانے کےلئے چھت فراہم کی جائے اور وہ یہی آرزو لئے اپنے بچوں کو بے سروسامان اور بے یارومددگار اس دنیا میں تنہا چھوڑ گئے۔
اداکار لاڈلہ
اسی طرح ماضی کے ہر دلعزیز فنکار لاڈلہ بھی انتہائی کسمپرسی کی حالت میں انتقال کرگئے ان کی لاش11گھنٹے تک لاہور کے میوہسپتال میں پڑی رہی۔ اداکارلاڈلہ نے مختلف فلموں میں مزاحیہ اداکاری کی جن میں ان کی ایک مشہور فلم مولا جٹ بھی شامل ہے لیکن اپنی اداکاری کے باعث لوگو ں کے دلوں پراج کرنے والا لاڈلہ نے زندگی کے آخری دن انتہائی مشکل اور کسمپرسی میں گزارے اور وقت آخرت میں ان کے پاس اپنے عزیزواقارب میں سے کوئی نہ تھا۔ اس لئے ان کی لاش 11گھنٹے تک پڑی رہی اور پھر میڈیا پرخبر چلنے کے بعد ہسپتال انتظامیہ نے ان کی لاش کو سرد خانے میں رکھوادیا۔
اداکار مستانہ
سٹیج اور تھیٹر کی دنیاکا بے تاج بادشاہ معروف اداکار مستانہ بھی اپنی بیماری کے ہاتھوں زندگی کی جنگ ہار گیا جبکہ ان کے اہل خانہ کئی بار حکومت سے ان کے علاج کےلئے معاونت کی اپیل کرتے رہے لیکن بے سود۔ ایک وقت تھا جب سٹیج ڈراموں کے دلدادہ سٹیج پر ان کی آمد کا انتظار کیا کرتے تھے مگر وہ مستانہ جس کے سٹیج پر آتے ہی لوگوں کے قہقہے کو نبھا کرتے تھے مگر ان کی بیماری کی حالت میں ان کے بیٹے اور اہل خانہ انہیں دربدر لئے پھرتے رہے مگر ناتو حکومت اور نہ ہی ان کے ساتھی فنکاروں نے ان کی مدد کی۔ مستانہ نے اپنی زندگی کے45سال اس ملک کو دئیے اپنے گھر میں فاقہ کشی کرنے کے باوجود سٹیج پر اپنے فن کا مظاہرہ مکمل ایمانداری سے کیا۔ اس کی جگتوں اور اداکاری سے کبھی کسی نے یہ محسوس نہ کیا کہ آج وہ کس پریشانی میں ہے۔ انہوں نے ایک لمبی بیماری کاٹی اور پھر بالآخر11اپریل 2011ءکو وکٹوریہ ہسپتال میں اس دنیا فانی سے رخصت ہوگئے۔
اداکار ببو برال
82ءمیں سٹیج سے فنی کیرئیر کا آغاز کرنے والے ببو برال نے سینکڑوں ڈراموں میں لازوال کردار ادا کیے۔ انہوں نے ڈرامہ شرطیہ میٹھے میں ایک ایسا کردار ادا کیا جو لوگوں کو آج بھی یاد ہے اور اس کردار نے انہیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچادیا۔ اداکار مستانہ کے ساتھ ان کی جوڑی کو بہت پسند کیا جاتا تھا فن اداکاری کے علاوہ ببو برال نے گلوکاری میں بھی خدمات سرانجام دیں۔ ببوبرال گردو ں کے عارضہ میں مبتلا تھے آخری ایام میں حکومتی امداد کے باوجود وہ اپنی بیماری کے ہاتھوں زندگی کی جنگ نہ جیت پائے اور 16اپریل2011ءکو اس جہان فانی سے رخصت ہوگئے۔
اداکارغیور اختر
غیور اختر70ءمیں شوبز سے منسلک ہوئے مزاحیہ اداکاری میں خوب نام کمایا، سونا چاندی میں ان کے کردار کو بے پناہ سراہا گیا اور ان کا کردار حمید بھائی آج بھی لوگوں کویاد ہے انہیں حکومت کی طرف سے پرائیڈ آف پرفارمنس بھی دیا گیا لیکن اس کے باوجود انہیں کچھ گلے شکوے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ پرائیڈ آف پرفارمنس آرٹسٹ کے مرنے کے بعد دیا جانا چاہیے اس کی وجہ یہ ہے کہ جب حکومت کہتی ہے کہ یہ ہمارا پرائیڈ ہے یہ ہمارا غرور ہے پھر اس کو سہولیات بھی ملنی چاہیں مگر ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوتا ان کا کہنا تھا کہ انہیں بیماری نے اس قدر تکلیف نہیں پہنچائی جس قدر مجھے پرائیڈ آف پرفارمنس اوردیگر درجنوں ایوارڈز دینے والی حکومت کی عدم توجہی نے پہنچائی ہے۔ غیور اختر حکومت کی امداد اور امتزاج پرسی کے منتظر رہے ا ور پھر وہ بھی اس دنیا سے چلے گئے۔
اداکارجمیل فخری
اندھرا اجالا کے پولیس انسپکٹر جعفر حسین اور عزیز فنکار جمیل فخری46ءمیں پیدا ہوئے۔ انہوں نے اپنے فنی سفر کا آغاز تھیٹر سے کیا۔ انہوں نے 60کی دہائی میں اداکاری کے شعبے میں قدم رکھا اور مرتے دم تک لوگوں میں خوشیاں بانٹتے رہے۔ انہوں نے فلم ٹی وی تھیٹر میں بے پناہ لازوال کردارادا کئے اور انہوں نے اپنی اداکاری کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں گھر کرلیا ۔ جمیل فخری کا بیٹا دیار غیر میں 22ماہ تک لاپتہ رہا۔ پھراس کے بعد اس کی لاش ملی۔ انہوںنے اپنے بیٹے کے حولاے سے حکومت اور پاکستانی سفارتکارروں کی بے حسی کا گلہ میڈیا کے سامنے کیا۔ انہوںنے بتایا کہ22اہ تک ان کا بیٹا لاپتہ رہا ہے انہوں نے امداد کےلئے ہر دروازہ کھٹکھٹایا مگر ان کی کوئی دادرسی نہ کی گئی اور پھر آخر کار انہو ںنے اپنے بیٹے کا غم دل سے لگالیا اور پھر فالج کے حملہ سے وہ اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔
پشاور کی معروف ادلاکارہ نوشابہ
پشاور کی نامور اداکارہ نوشابہ نے پی ٹی وی اور ریڈیو میں بے پناہ خدمات سرانجام دیں اپنی بہترین اداکاری کے باعث کئی ایوارڈ حاصل کرنے کے علاوہ انہوں نے صدارتی ایوا رڈ بھی حاصل کیا مگر حالات کی ستم ظریفی یہ کہ آج ماضی کی یہ اداکارہ غربت کے ہاتھوں اپنے اکلوتے بیٹے کا علاج کروانے سے قاصر ہے اور اپنے صدارتی ایوارڈ بیچنے پر مجبور ہے۔ انہوں نے ایک ٹی وی پروگرام میں صدر سے گزارش کی اگر آپ ہی مجھ سے ایوارڈ خرید لیں اور میں اس سے اپنے بیٹے کا علاج کراسکوں تو مہربانی ہوگی۔ نوشابہ کا اکلوتا بیٹا گردوں کے عارضہ میں مبتلا ہے نوشابہ اپنے بیٹے کے علاج کےلئے اپنی تمام جمع پونجی خرچ کرچکی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مجھے صدارتی ایوارڈ تو دیدیا گیا مگر میں اپنے بیٹے کے علاج کےلئے دردرٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوں۔ کے پی کے سے تعلق رکھنے والی یہ فنکارہ آج بھی حکومتی امداد کی منتظر ہے۔
شہزاد قیر(عینک والاجن)
قیصر شہزاد جنہوں نے ہردل عزیز ڈرامہ عینک والا جن میں کردار ادا کیا تھا وہ مالی طور پر مستحکم تھے مگر پی ٹی وی کے ایک جعلی لیٹر میں انہیں عینک والا جن ری پروڈیوس کرنے کو کہا گیا اور انہوں نے اپنا سارا سرمایہ ڈرامے کی تکمیل میں لگادیا۔ جب وہ اپنا تیار ڈرامہ لے کر پی ٹی وی پہنچے تو انہیں معلوم ہوا کہ ایسا کوئی لیٹر پی ٹی وی کی طرف سے جاری ہی نہیں کیا گیا جبکہ وہ ڈرامہ کی تکمیل میں بھی اپنی تمام جمع پونجی لگانے کے بعد اب انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کے بچے مالی وسائل نہ ہونے کی وجہ سے تعلیم سے محروم ہوگئے۔
روحی بانو
ماضی کی معروف اداکارہ روحی بانو جنہوںنے اپنی خوبصورتی اور بہترین اداکاری کے باعث دلوں پرراج کیا مگر وہ بھی حالات کے ہاتھوں ان دنوں ایک مینٹل اسائلم میں زندگی گزار رہی ہیں۔ ان کے بیٹے کی اچانک حادثاتی موت نے انہیں نفسیاتی مریض بنادیا۔
جاوید کوڈو
جاویدکوڈ بھی ان دنوںشدید بیمار ہیں اور مشکل حالات کا سامنا کررہے ہیں۔ ہمارے ملک میں فنکار کو پذیرائی تو ضرور ملتی ہے مگر صرف اورصرف اس قوت تک جب تک وہ اپنے ملک کی عوام کو محظوظ کرتا ہے اور جب وہ بیمار پڑجاتا ہے یا پھر اسے کسی مشکل کا سامنا ہوتا ہے یہی لوگ اس کی قدر نہیں کرتے اور وہ بے چارے صرف اورصرف اللہ کی مدد کا طالب رہ جاتا ہے۔ایسا کیوں ہے؟ فنکار کون لوگ ہوتے ہیں اور ان پہ یہ مسائل اور یہ حالات کیوں آتے ہیں ؟میری ناتواں عقل میں تو بس یہی بات آتی ہے کہ فنکار، ادیب، شاعر، موسیقار، گلوکار اور اداکار سب کے سب عام انسانوں کے سانچوں سے مختلف ہوتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

ٹک ٹاکرز کنول آفتاب اور ذوالقرنین نے تھائی لینڈ میں ہوٹل خرید لیا

لاہور: مشہور ٹک ٹاکر جوڑی ذوالقرنین سکندر اور کنول آفتاب نے تھائی لینڈ میں ہوٹل خرید …