برصغیر میں جب سے فلمیں بننے کی ابتدا ہوئی، اس وقت سے ایک موضوع سرفہرست رہا، جس کے تناظر میں ہر دور میں شاہکار فلمیں تخلیق ہوئیں، یہ موضوع اس منفرد محبت کا ہے، جس کا تعلق خطے کی آزادی سے تھا۔
پاکستانی سینما کا فکری پس منظر
تقسیم سے پہلے اور بعد میں مذہب، آزادی، حب الوطنی اور دفاع وطن کے تناظر میں بے شمار فلمیں بنائی گئیں اور ایسی فلموں کو شائقین نے بھی پسند کیا۔ افراد سے قوم بننے تک کے سفر میں درپیش مشکلات اور آزمائشوں کا ایک عکس ان فلموں میں بھی ملتا ہے۔ تقسیم ہند سے پہلے کی فلموں کا موضوع، آزادی کا حصول تھا، بعد از تقسیم بھی کچھ عرصے تک یہ موضوع فلمی منظرنامے پر چھایا رہا۔
قیام پاکستان کے بعد حب الوطنی اور ملک وقوم کے دفاع کا موضوع پاکستانی سینما کامحبوب موضوع بن گیا۔ ان تمام اقسام کی فلموں کے ساتھ ایک اور رنگ فلمی صنعت میں شامل رہا، یہ مذہب سے لگاؤ کا رنگ تھا، جس کے رنگ میں بھی بہت ساری فلمیں رنگی گئیں اور عوام نے ان کو پسند کیا۔ عہدِحاضر کے سینمامیں بھی مذہب اور وطن سے متعلق فلمیں تخلیق ہو رہی ہیں اور ان کی پسندیدگی کا تناسب کامیابی سے ہمکنار ہے۔ یوم آزادی کے اس خصوصی موقع پر خصوصی جائزہ یہاں رقم کیا جا رہا ہے، جس میں 1947 سے لے کر 2017 تک بننے والی فلموں میں مذہب سے لگاؤ، وطن سے محبت اور اس کے دفاع پر جتنی فلمیں بنائی گئی ہیں، ان پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالی گئی ہے۔
تاریخی ومذہبی فلموں کا دور
برصغیر میں بولتی فلموں کی تاریخ کا آغاز 1913 سے ہوتاہے۔ برصغیر کے فلمی سینما کی تاریخ میں پہلی اسلامی فلم’’نورجہاں‘‘ تھی، جسے 1923 میں بنایاگیا۔ تقسیم کے بعد جو تاریخی و مذہبی پس منظر کی فلمیں تخلیق ہوئیں، فلمی صحافت کے معروف لکھاری’’زخمی کانپوری‘‘ کے دیے ہوئے اعداد و شمار کے مطابق ان فلموں کی نمائش کیے جانے کی ترتیب وتفصیل کچھ یوں ہے۔
