لاہور(میڈیا92نیوز) رائٹ آف انفارمیشن ایکٹ کے تحت دی جانے والی درخواست ردی کی ٹوکری میں پھینک دی گئی۔ پنجاب لینڈ ریکارڈ اتھارٹی کی انتظامیہ سالانہ اخراجات، افسران کی تعیناتی اور مراعات ڈیٹا انٹری کمپنیوں کیساتھ کیے جانے والے معاہدات کی تفصیلات دینے سے قاصر نکلی، 6ماہ گزرجانے کے بعد بھی انفارمیشن اکٹھی نہیں کی جاسکی۔مزید معلوم ہواہے کہ پنجاب لینڈ ریکارڈ اتھارٹی کے قیام، مراعات ،سروس سٹرکچر اور محکمانہ پالیسیوں پر عوام الناس کے بعد ارکان اسمبلی اور قانون دانوں میں بھی ابہام پایا جانے لگا، ڈیٹا انٹری کرنے والی کمپنیوں کی تفصیلات، معاہدات،2009ء سے 2015ء تک پی ایم یو کے سالانہ اخراجات اور بجٹ کے علاوہ پنجاب لینڈ ریکارڈ اتھارٹی میں ٹرانسفر ہونے والے افسران کی تعیناتی، سکیل اور مراعات پر بھی کئی سوالات اٹھ گئے۔ ڈیٹا انٹری کرنے والی کمپنیوں کے خلاف اتھارٹی افسران کی ملی بھگت سے حکومتی خزانے کو کروڑوں روپے کا نقصان پہنچانے کے الزام میں محکمہ اینٹی کرپشن اور دوسرے احتسابی اداروں میں متعدد درخواتیں زیر سماعت ہیں۔ چیف انفارمیشن آفیسر پنجاب لینڈ ریکارڈ اتھارٹی کو تحریری لیٹر کے مندرجات میں لاء ونگ ایڈووکیٹ اور سولیسٹر کی ارتضا نقوی نے موقف اختیار کیا کہ انفارمیشن ایکٹ ہر گورنمنٹ آفیسر پر لاگو ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی شہری کو تحریری درخواست پر تمام مطلوبہ معلومات فراہم کرے اس لیے اس لیٹر کے ذریعے بتایا جائے کہ پی ایم یو(ایل آر ایم آئی ایس) کا 2009ء سے 2015کے درمیان سالانہ بجٹ کیا ہے۔2009ء سے 2015ء تک سالانہ بنیادوں پر اخراجات کی تفصیلات فراہم کی جائیں۔ غلطیوں سے پاک اراضی ریکارڈ کی ڈیٹا انٹری کے لئے اے او ایس نیفٹ اور سسٹم انٹرنیشنل کمپنیو ں کے ساتھ جو معاہدہ کیا گیا ہے ان تمام معاہدوں اور ان کے تکمیلی سرٹیفکیٹ فراہم کیے جائیں۔ پنجاب لینڈ ریکارڈ اتھارٹی میں بطور کنسلٹنٹ کام کرنے والے عاطف جہانگیر کا کنٹریکٹ لیٹر اور ان کو مہیا کی گئی سہولیات اورتنخواہ کا پیکیج بتایا جائے۔ ڈیٹا انٹری کرنے والی کمپنیوں کو ادا کی گئی رقوم کی رسیدیں مہیا کی جائیں۔ پنجاب لینڈ ریکارڈ کے ایڈیشنل ڈائریکٹر، ڈپٹی ڈائریکٹر سروس سنٹر انچارج، سروس سنٹر آفیشل کے بارے میں بتایا جائے کہ پی ایم یو(لینڈ ریکارڈ انفارمیشن اینڈ مینجمنٹ سسٹم کے ان افسران کو این ٹی ایس کے ذریعے بھرتی کا طریقہ کار اور ان کا سکیل کیا تھا اور جب ان افسران کو پنجاب لینڈ ریکارڈ اتھارٹی میں ٹرانسفر کیا تو ان کے تنخواہ کے سکیل عہدہ اور مراعات میں کیا تبدیلیاں کی گئی اور یہ تمام تبدیلیاں کن قوانین کے تحت کی گئیں ہیں۔پنجاب لینڈ ریکارڈ اتھارٹی کے ترجمان نے کہا ہے کہ بلاشبہ تمام معلومات رائٹ آف انفارمیشن ایکٹ کے تحت مہیا کرنا ہر ڈیپارٹمنٹ اورآفیسر کی ذمہ داری ہے جس پر ہمیں کوئی اعتراض نہ ہے موجودہ لیٹر میں پوچھے گئے تمام سوالات کے جواب اور ان میں موجود ابہام کو دورکردیاجائے گا۔ اراضی ریکارڈ کو کمپوٹرائزڈ کرنے کا منصوبہ وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہبازشریف کا ایک صاف شفاف پراجیکٹ ہے۔
