لاہور (میڈیا پاکستان) لاہور ہائیکورٹ نے پنجاب حکومت کی چھپن کمپنیوں میں اسی ارب روپے کی مبینہ بے ضابطگیوں کیخلاف درخواست میں حکومت سے جواب طلب کر لیا، عدالت نے ریمارک دیئے کہ یہ عوام کا پیسہ ہے، بتایا جائے کہ بلدیاتی نظام کی موجودگی میں یہ کمپنیاں کیسے چل رہی ہیں۔ تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس سید منصور علی شاہ نے اظہر صدیق ایڈووکیٹ کی درخواست پر سماعت کی، درخواست گزار نے مئوقف اختیار کیا کہ پنجاب حکومت نے بلدیاتی نظام کے باوجود چھپن کمپنیاں بنا رکھی ہیں، بلدیاتی اداروں کے اختیارات ان کمپنیوں کو دیکر پورے صوبے کو ہی پنجاب پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی بنا دیا گیا ہے، میڈیا میں ان کمپنیوں میں اسی ارب روپے کی کرپشن رپورٹ ہوئی ہے لہذا کمپنیوں کیخلاف نیب، ایف آئی اے اور اینٹی کرپشن کو تحقیقات کا حکم دیا جائے اور کمپنیوں کو بھی فوری طور پر کام کرنے سے روکا جائے، ابتدائی سماعت کے بعد عدالت نے ریمارکس دیئے کہ کمپنیز کے قیام سے متعلق اہم سوالات اٹھائے گئے ہیں، بتایا جائے کہ بلدیاتی نظام کی موجودگی میں کمپنیاں بنانے کا کیا مقصد ہے اور سیکرٹریز کمپنیاں بنا کر ڈبل تنخواہیں کیسے وصول کر رہے ہیں، عدالت نے مزید وضاحت طلب کی کہ یہ بھی بتایا جائے کہ کمپنیوں کا آڈٹ کیسے کیا جاتا ہے اور انکا فنڈ کہاں استعمال ہو رہا ہے، عدالت نے قرار دیا کہ یہ عوام کا پیسہ ہے اور یہ کیس انتہائی اہم ہے، اس معاملے کی سماعت کیلئے لارجر بنچ بھی بنایا جا سکتا ہے، عدالت نے پنجاب حکومت سمیت دیگر فریقین کو نوٹسز جاری کرتے چودہ نومبر تک تفصیلی جواب طلب کرلیا۔
