سپریم کورٹ میں پاناما عمل درآمد کیس میں جے آئی ٹی رپورٹ پر دوسری سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے ہیں کہ وزیراعظم نے تمام دستاویزات دینے سے انکار کیا، عدالت نہیں تو جے آئی ٹی کو ہی ریکارڈر دے دیتے، بارثبوت خود شریف خاندان نے اپنے سرلیا تھا، وزیراعظم کی تقاریر ریکارڈ کا حصہ ہیں، آپ دستاویزات نہیں دیں گے تو کوئی نکال لائے گا،شواہد کے جائزے کے بعد فیصلہ کریں گے کہ معاملہ نیب کو دیں یا نااہلی کافیصلہ دیں۔
وزیر اعظم کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ عدالت تقریر میں تضاد پر کوئی حکم جاری نہیں کر سکتی، یہ جائیدادیں اور ملز وزیر اعظم کی ملکیت نہیں ہیں، جے آئی ٹی رپورٹ کو مکمل تحقیقاتی رپورٹ نہیں کہاجاسکتا نہ اس کی بنیاد پر ریفرنس دائر کیا جاسکتاہے ۔
وزیر اعظم کے وکیل کے دلائل جاری تھے کہ سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔ خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ وہ کل تک دلائل مکمل کرنے کی کوشش کریں گے۔
آج سماعت شروع ہوئی تو وزیر اعظم کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیئے اور سپریم کورٹ کے20 اپریل کا حکم نامہ اور جے آئی ٹی کو دئیے گئے 13 سوالات پڑھ کر سنائے، ان کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی نے 13 کے بجائے 15سوالات کیے،جے آئی ٹی نے آمدن سے زائد اثاثوں کو بھی سوال بنا لیا۔ وزیر اعظم نہ تو کسی آف شور کمپنی کے مالک ہیں نہ کوئی تنخواہ وصول کی۔
خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ حکم نامہ اس لیے سنایا کہ بتایا جائے جےآئی ٹی کو کس نوعیت کی تحقیقات سونپی گئیں،عدالت اپنے حکم میں تحقیقات کی سمت کا تعین کر چکی ہے۔
وزیر اعمظ کے وکیل نےدلائل دیتے ہوئے کہا کہ جے آئی ٹی کی تحقیقات شفاف نہیں، وزیراعظم سے دستاویزات پر موقف نہیں لیا گیا، عدالت ایسی رپورٹ پر حکم جاری نہیں کرسکتی۔
جسٹس اعجاز الاحسن نےریمارکس دئیے کہ وزیراعظم سمیت سب کو صفائی کا موقع دیا گیا، وزیراعظم اور ان کے بیٹوں کی یہ اپروچ تھی کہ کچھ نہ بتایا جائے، کہا گیا جو معلوم ہو سکے وہ جے آئی ٹی خود ہی کرے۔
جسٹس عظمت سعید نےکہا کہ جو باتیں جے آئی ٹی نے نہیں پوچھی تھیں وہ ہم نے پوچھ لیں، بات ختم،سفارشات پر عمل کرنا ہے یا نہیں اس بات کا فیصلہ عدالت کرے گی۔
دوران سماعت وزیر اعظم کے وکیل خواجہ حارث نے موقف اختیار کیا کہ وزیراعظم ایف زیڈ ای کے مالک نہیں اور نہ ہی کبھی تنخواہ لی، ایف زیڈ ای کمپنی حسن نواز کی ملکیت ہے،اثاثے آمدن سے زائد ہوں تو بھی صفائی کا موقع ملتا ہے۔
اس پر جسٹس عظمت سعیدنے ریمارکس دیئے کہ آپ نے اپنے جواب میں کسی دستاویز کی تردید نہیں کی، آپ پر دروازے بند نہیں کر رہے، جب چاہیں متفرق درخواست میں دستاویزات کو چیلنج کر سکتے ہیں، آپ اصرار کریں گے تو رپورٹ کی جلد10بھی کھول دیں گے۔
سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دئیے ہیں کہ جے آئی ٹی نے تحقیقات کی روشنی میں سفارشات پیش کیں، آرڈر عدالت کو جاری کرنا ہے، یہ کہنا غلط ہے کہ موقع نہیں دیا گیا، وزیراعظم سمیت سب کو صفائی کا موقع دیا گیا،حقائق چھپائے گئے، جوابات نہیں دیے گئے، کوئی کہتا ہے یاد نہیں، کوئی کہتا اکاؤنٹنٹ کو پتہ ہو گا۔
جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں جسٹس عظمت سعید شیخ اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل 3رکنی بینچ جے آئی ٹی کی رپورٹ پر سماعت کررہا ہے۔
خواجہ حارث نے عدالت کی طرف سے پوچھے گئے 13 سوالات بھی پڑھ کر سنائے، ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے سوالات میں نواز شریف سے متعلق تحائف کاذکرتھا،سپریم کورٹ نےنوازشریف کیخلاف کسی مقدمےکودوبارہ کھولنےکاحکم نہیں دیاتھا۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نےلندن فلیٹس،قطری خط،بیئررسرٹیفکیٹ سےمتعلق سوالات پوچھے،سپریم کورٹ نے جو سوالات پوچھے ان کے جواب مانگے گئے تھے۔
جسٹس عظمت سعید شیخ نے استفسار کیا کہ آپ کہناچاہتےہیں کہ کسی پراپرٹی پرتحقیقات جےآئی ٹی کادائرہ کارنہیں تھا؟
خواجہ حارث نے دلائل آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ جےآئی ٹی نے 13 کے بجائے 15سوالات کر لیے، جو مقدمات ختم ہو گئے تھے ان کی بھی جانچ پڑتال کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ التوفیق کیس کا فیصلہ ہو چکا ہے ، دوبارہ نہیں کھولا جا سکتا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ بہت سارے معاملات اس کیس میں 13سوالوں سے مطابقت رکھتے ہیں،معاملات جانچے بغیر تفتیش مکمل نہیں ہو سکتی،لندن پراپرٹی سے متعلق منی ٹریل ایک معمہ ہے۔اصل بات تو منی ٹریل کا سراغ لگانا ہے، لندن فلیٹس کی منی ٹریل کا جائزہ لینا ہو گا۔پیسا کہاں سے آیا؟ اور فلیٹس کیسے خریدے گئے؟
جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ جے آئی ٹی نے جو بہتر سمجھا سفارش کر دی، سفارشات پر عمل کرنا ہے یا نہیں اس بات کا فیصلہ عدالت کرے گی۔
خواجہ حارث نے کہا کہ 13 سوالات کی روشنی میں حدیبیہ پیپر ملز کیس دوبارہ نہیں کھولا جا سکتا،جے آئی ٹی کو مقدمات دوبارہ کھولنے کی سفارش کا اختیار نہ تھا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ میری یادداشت کے مطابق لندن فلیٹس پہلے مقدمات کا بھی حصہ رہے ہیں،جے آئی ٹی نے تحقیقات کی روشنی میں سفارشات پیش کیں۔
جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ عوامی مفاد کے مقدمات میں پہلے عدالت کئی بار حکم جاری کر چکی ہے،ہم اس مرحلے پر رپورٹ کے کسی حصے پر رائے نہیں دینا چاہتے۔
جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ عوامی مفاد کے مقدمات میں پہلے عدالت کئی بار حکم جاری کر چکی ہے، ہم اس مرحلے پر رپورٹ کے کسی حصے پر رائے نہیں دینا چاہتے،رپورٹ کو مکمل تسلیم کرنا ہےیا نہیں یہ فیصلہ ٹرائل کورٹ کا ہو گا،حدیبیہ کیس تحقیقات میں شامل کرنادرست ہےیانہیں حتمی فیصلہ ٹرائل کورٹ کوکرناہے،رپورٹ کے کسی ایک حصے کو درست یا غلط کیسے قرار دے دیں؟
وزیر اعظم کے وکیل نے کہا کہ جےآئی ٹی کوایسےاختیارات نہیں دیےتھےکہ حدیبیہ کیس کھولنےکی سفارش کی جاتی۔
جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ جےآئی ٹی نےصرف سفارشات پیش کیں، آرڈر عدالت نے جاری کرنا ہے،سب سوالوں کا جواب انکوائری کے بغیر نہیں ہو سکتا۔
کیس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کردی گئی، وزیر اعظم کے وکیل خواجہ حارث کل بھی دلائل جاری رکھیں گے۔
یہ بھی پڑھیں
ماسٹر پلان عامر احمد خان
میڈیا 92 نیوز ڈسک ماسٹر پلان2050ءلاہور ڈویژن کے روشن مستقبل کا تعین کرے گا ۔ …