پاکستان میں شاید ہی کوئی اور دھندہ اتنی تیزی سے پھلا پھولا ہو جتنا پیری فقیری، مساجد، مزارات کی تعمیر کے لئے چندہ اکٹھا کرنے کا دھند۔ جی ہاں بھلے وقتوں میں جسے کوئی کام دھندہ کرنا عذاب لگتا تھا وہ کچھ دن کسی پیر صاحب کے پاس مرید بن کر گذارتا، کچھ جنتر منتر ، کچھ دم درود کے ٹوٹکے سیکھتا اور پھر کسی دن چپکے سے ان سے خلافت کی دستار بندھوا کے تصویر کھنچواتا اور سکی نئی جگہ پہ پہنچ کر اپنا ڈیرہ جماتا، اس تصویر کو نمایاں جگہ پر ٹانگ کے اپنے مرشد کے نام پر ان پڑھ، گنوار لوگوں کو الو بنا کے بیعت لیتا، مرشد کے مزار کے لئے چندے کے صندوقچی پر سبز چادر ڈال کے مریدین کے علاہ آتے جاتے راہگیروں سے بھی اس میں چندہ ڈالنے کے لئے کہا جاتا۔ڈیرے کی پہلی جمعرات ہی دھندے کے چمکنے کا فیصلہ کر دیتی کہ اس کے بعد کسی کو کچھ کہنے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی کہ لوگ از خود اپنے لئے دعا کروانے آتے اور پیر صاحب کو نذر نیاز دے کر چندے کی صندوقچی میں بھی حسب توفیق کچھ نہ کچھ ڈال جاتے تھے۔
پاکستان کے پہلے فوجی آمر جنرل ایوب خاں کی ضعیف الاعتقادی نے مزارات اور خانقاہوں کے اس دھندے کو یوں سرکاری سرپرستی میں لیا کہ باقاعدہ محکمہ اوقاف بنا کے مزارات اور مساجد کو حکومتی تحویل میں لے کر اپنی حکومت کی جائز آمدنی میں اضافہ کر لیا اور اس کے ساتھ ساتھ علماءو مشائخ کے ساتھ تعلقات، جو ابتدا میں بگڑ رہے تھے انہیں سرکاری مراعات اور پرکشش مشاہرے و دیگر ترغیبات سے رام کر لیا گیا یوں نہ صرف سرکاری افسران کی کھپت کے لئے زبردست جگہ میسر آ گئی بلکہ مذہبی طبقے کے ساتھ قربت بڑھنے سے ایک آمر کو دس سال سے زیادہ عرصہ تک حکومت کرنے کا موقع مل گیا جس نے بعد میں آنے والے جاہ پرست جرنیلوں کے لئے اقتدار پر قبضے ایسی راہ ہموار کی کہ یہ ملک اپنے وجود میں آنے کے بعد سے 35برس تک براہ راست جرنیلوں کے قبضے میں رہا اور آج بالواسطہ بھی انہی کے زیر دست ہے۔ بے شک کہنے کو ملک میں جمہوریت ہے مگر اس کے ضامن کون ہیں؟ کبھی اسلم بیگ جمہوری نظام کے ضامن بنے اور تمغہ جمہوریت لے اڑے مگر جمہوریت مشرق کی دست برد سے نہ بچ سکی۔ جنرل کیانی نے مشرف کے خلاف عوامی نفرت کا رخ دیکھ کر دانشمندانہ فیصلہ کیا اور فوج کو کچھ عرصے کے لئے سیاسی کی آلائش سے پاک رکھا کہ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو جس طرح مشرف کی نفرت میں باوردی فوجی اہلکاروں کی سر عام پٹائی شروع ہو گئی تھی جس پر مشرف رجیم کو باقاعدہ طور پر نوٹیفیکیشن جاری کرنا پڑا کہ فوجی افسران خصوصاً پبلک مقامات پر وردی میں نہ جایا کریں، اس قسم کا ماحول ملکی سلامتی کے لئے نہایت مہلک ہو سکتا تھا اگر جنرل کیانی اس وقت مشرف کو نکالنے کی جمہوری حکومت کی کوشش کا ساتھ نہ دیتے۔ یہ جمہوری حکومت کا ہی کارنامہ تھا کہ جس نے رفتہ رفتہ اپنی فوج کا کھویا ہوا وقار بحال کرایا اور عوام کی نظروں میں اس کی ساکھ بنانے کے لئے جنرل کیانی کو عہدے میں توسیع دی یہ الگ بات کہ ان کو ملنے والی توسیع کو نظیر بنا کر ان کے بعد والے جرنیل نے بھی نواز شریف سے اس قسم کی امید لگا لی جو بوجوہ پوری نہ ہونے پر جمہوری حکومت کے ساتھ مسلسل اٹ کھڑکا لگائے رکھا یہاں تک کہ انہیں اقتدار سے محروم کرا کے ہی دم لیا۔
آج نواز شریف جمہوری اصولوں کی پاسداری کی پاداش میں جیل میں بیٹھے ہیں جبکہ ان کے حریف جمہوریت کے اس تسلسل کا ثمر سمیٹ رہے ہیں جسے مضبوط کرنے کے لئے نواز شریف نے جنگ لڑی اور ابھی تک اسی جدوجہد میں مصروف ہیں جبکہ ان کے بدترین مخالفین ان قوتوں سے جمہوریت کے تسلسل کی ضمانت لے رہے ہیں جنہوں نے بڑی ہوشیاری کے ساتھ پارلیمان کو اپنی کٹھ پتلیوں کے ذریعے یرغمال بنایا ہوا ہے۔ ان کٹھ پتلیوں کو جنہوں نے چندہ جمع کرنے کے ہنر کو آزما کر دنیا سے اربوں روپے اینٹھ کر عالمی جواءمنڈی میں ہار دیئے تھے ایک بار پھر چندہ مہم پر لگا دیا ہے۔ آج یہ چندہ ہسپتال نہیں ڈیم کے لئے مانگا جا رہا ہے۔ جبکہ چھوٹے چھوٹے ڈیم بنا کر کے پی کے کو بجلی میں خود کفیل بنانے کے وعدے ادھورے چھوڑ کر صوبے کو اللہ کے حوالے کر رکھا ہے۔ دوسری طرف نواز شریف دور کے بجلی کے منصوبوں سے پیدا وار بند کروا کے قوم کو دھوکا دیا جا رہا ہے کہ پچھلی حکومت نے کچھ نہیں کیا تھا اگر واقعی نواز حکومت نے توانائی منصوبے مکمل نہیں کئے تھے تو عمران خان کی حکومت بننے کے بعد بھی کیوں بجلی کی لوڈشیڈنگ نہیں ہو رہی تھی ابھی کیوں یہ عذاب مسلط ہوا ہے اورکس نے کیا ہے؟ چندہ خوری کے عادی کچھ اس بارے میں بتانا پسند کریں گے؟
آج ہی کسی نے کیا خوب لطیفہ وٹس ایپ کیا ہے آپ بھی محظوظ ہوں:
عمران نیازی …….. امی جان کہتی تھیں ……..
کوئی دھندہ چھوٹا نہیں ہوتا ….
اور چندے سے بڑا کوئی دھندہ نہیں ہوتا ……..
