لاہور(M92)پنجاب لینڈ ریکارڈ اتھارٹی کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر لینڈ ریکارڈ ز نے عدالت عالیہ کی جانب سے اراضی پر جاری حکم امتناعی کی کینسلیشن کے احکامات پر عملد رآمد کی آڑ میں رشوت وصولی اور بدعنوانی کا بازار گرم کر دیا،صوبے بھر میں حکم امتناعی کینسل ہونے کے بعد شہریوں کو تصدیق کے بہانے ایک ایک مہینے خوار کیا جانے لگا،پنجاب لینڈ ریکارڈ اتھارٹی کی جانب سے واضح ایس او پی کاجاری نہ کیا جانا بھی اسسٹنٹ ڈائریکٹر لینڈ ریکارڈ ز کے لئے نعمت ثابت ہوا،منہ مانگے داموں کی وصولی کے بعد سائل کی درخواست پر 24گھنٹے میں عمل درآمد کئے جانے کا بھی انکشاف،پنجاب لینڈ ریکارڈ اتھارٹی انتظامیہ سے نوٹس کا مطالبہ ،تفصیلات کے مطابق پنجاب لینڈ ریکارڈ اتھارٹی انتظامیہ کی جانب سے بنائے گئے قوانین وضوابط ادارے کے آئین اور اہلکاروں کے لئے جاری ایس او پی میں واضح خامیوں کا انکشاف ہوا ہے جس کے تحت صوبے بھر میں پنجاب لینڈ ریکارڈ کے زیر انتظام کام کرنے والے اسسٹنٹ ڈائریکٹر لینڈ ریکارڈ ز نے رشوت وصولی اور بدعنوانی کا بازار گرم کردیا ہے،سائلین کی اراضی پر عدالت عالیہ کی جانب سے لگے ہوئے ہوئے حکم امنتناعی اور پھر دوبارہ عدالت عالیہ کی جانب سے حکم امتناعی کے کینسل کئے جانے کے احکامات پر عمل درآمد کے لئے اسسٹنٹ ڈائریکٹر لینڈ ریکارڈ زنے اپنے مفادات پورے کرنے کے لئے ایک نیا راستہ نکال لیا ہے ،سائل کو یہ کہا جاتا ہے کہ کیونکہ عدالت عالیہ نے اراضی پر حکم امتناعی کینسل کر دیا ہے لیکن اس کو کمپیوٹرائزڈ ریکارڈ میں بعد از تصدیق اندراج کیا جائے گا،تصدیق کے اس مرحلہ میں سائل کو ایک مہینے تک خوار کیا جاتا ہے جس کا صرف مقصد یہ ہوتا ہے کہ سائل خواری سے بچنے کے لئے پیسے دے کر اپنے کام کو مکمل کروالئے ،ذرائع نے مزید انکشاف کیا ہے کہ عدالت عالیہ کی جانب سے کینسل حکم امتناعی کو ریونیو ریکارڈ میں اندراج کے لئے جو سائل منہ ما نگے دام دے دیتا ہے تو 24گھنٹے کے اندر ہی اس کا اندراج کر دیا جاتا ہے بصورت دیگر اس کو حسب صابق خوار کیا جاتا ہے ،پنجاب کے تمام کمپیوٹرائزڈ اراضی ریکارڈ میں دوہرے معیار کو اپنایا گیا ہے جس میں ایک طرف سائل کو ایک مہینے تک خوار کیا جاتا ہے اور دوسری طرف 24گھنٹے میں کام کو مکمل بھی کر لیا جاتا ہے،یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ عدالت عالیہ کی جانب سے کینسل کئے جانے والے حکم امتناعی پر عمل درآمد میں تاخیر کے باعث مخالف پارٹی دوبارہ اسی پراپرٹی پر حکم امتناعی لے آتی ہے جس سے لڑائی جھگڑے کا نیا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ،پنجاب لینڈ ریکارڈ کی جانب سے اگر واضح ایس او پی بنائے جاتے تو ایسی پریکٹس معمول نہ بن جاتی، جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ پنجاب لینڈ ریکارڈ کے آئین ،قوانین و ضوابط میں ابھی بھی سقم پایا جاتا ہے جس کا فائدہ پنجاب لینڈ ریکارڈ اتھارٹی کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر لینڈ ریکارڈ اٹھار ہے ہیں ۔
اسسٹنٹ ڈائریکٹر لینڈ ریکارڈز نے اپنے موقف میں کہا ہے کہ عدالت عالیہ کی جانب سے حکم امتناعی کو کینسل کرنے کے احکامات پر عمل درآمد کرنے میں ہمیں کوئی قباحت نہ ہے ،تصدیق کے بعد حکم امتناعی کے اندراج کا مقصد صرف اور صرف اپنی سیکیورٹی ہے ،کیونکہ ماضی میں کئی ایسے واقعات رونما ہو چکے ہیں جب اراضی ریکار ڈ پر لگے حکم امتناعی جعلی ثابت ہوئے اس کے ساتھ ساتھ کینسلیشن کے احکامات بھی جعلی نکلے ،پنجاب لینڈ ریکارڈ اتھارٹی کی جانب سے ہماراابھی تک سروس سٹرکچر ہی نہیں بنایا گیا ہے ،جب تک ہمیں ہمارے سروس سٹرکچر کے واضح ایس او پی نہیں دیئے جاتے ہیں اس وقت تک ایسی صورتحال پیش آتی رہے گی ،تصدیق کی آڑ میں رشوت وصولی کے الزامات میں صداقت نہیں ہے۔
پنجاب لینڈ ریکارڈ اتھارٹی کے ترجمان نے کہا ہے کہ عدالت عالیہ کی جانب سے حکم امتناعی کینسل کئے جانے کے احکامات میں اگر جان بوجھ کر کوئی عمل درآمدنہیں کر رہاہے تو اس کے خلاف محکمانہ کارروائی عمل میں لائی جائے گی،وزیر اعلیٰ پنجاب کا یہ پراجیکٹ صاف شفاف ہے جس کو ہر صورت میں کرپشن سے پاک رکھا جائے گا۔
