شہبار شریف اور خاندان نے زلزلہ زدگان کی برطانوی امداد چرا کر اپنے اکاؤنٹس میں ڈلوائی، برطانوی اخبار کا دعویٰ

اسلام آباد (میڈیا92نیوز آن لائن)برطانوی اخبار نے شہباز شریف اور انکے اہل خانہ پر الزام عائد کیا ہے کہ برطانیہ کی جانب سے زلزلہ زدگان کو دی گئی 500ملین پاؤنڈز کی امداد میں سے لاکھوں پاؤنڈز چرا کر اپنے اکائونٹس میں ڈلوالی، شہباز شریف اور انکے خاندان نے برطانیہ کی جانب سے ملنے والی امداد میں خردبرد کر کے لاکھوں پاؤنڈز منی لانڈرنگ کے ذریعے برطانیہ منتقل کئے ہیں، شریف خاندان پہلے ہی کرپشن اور منی لانڈرنگ کے الزامات کا سامنا کر رہا ہے۔

اخبار کے مطابق 2003میں شریف فیملی کی دولت ڈیڑھ لاکھ پائونڈ (2؍ کروڑ 97؍ لاکھ روپے) تھی جو 2018 میں 20؍ کروڑ (39؍ ارب 72؍ کروڑ روپے) تک پہنچ گئی، اخبار کے مطابق زیر حراست برطانوی شہری آفتاب محمود نے شہباز خاندان کیلئے منی لانڈرنگ کی، داماد نے امداد کے فنڈ میں سے 10؍ لاکھ پائونڈ (19؍ کروڑ 86؍ لاکھ روپے) وصول کیے، رقم برمنگھم بھیجی گئی بعد میں شہباز کے خاندانی اکائونٹس میں منتقل کر دی گئی، 2005 سے 2012 کے درمیان ایرا کو 54 کروڑ پائونڈ (10؍ ارب 71؍ کروڑ روے) امداد دی، بڑا حصہ علی عمران اور شہباز کو منتقل ہوا، واضح رہے کہ اسی برطانوی اخبار نے گزشتہ سال نواز اور انکے بیٹوں کو پینٹ ہائوس قذاق قرار دیتے ہوئے 32؍ ملین پائونڈ (6؍ ارب 35؍ کروڑ روپے) کی جائیداد کی تفصیلات دی تھیں۔ دوسری جانب سلیمان شہباز کا کہنا ہے کہ برطانوی اخبار کی رپورٹ میرے خاندان کیخلاف سازش ہے۔

برطانوی اخبار ڈیلی میل میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق برطانیہ کے ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی (ڈی ایف آئی ڈی) نے برطانیہ کے ٹیکس دہندگان کے پیسے سے شہباز شریف کی صوبائی حکومت کو 50کروڑ پاؤنڈز بطور امداد اس وقت دیے جب وہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے۔ تحقیق کاروں کے مطابق ڈی ایف آئی ڈی نے یہ رقم سیلاب متاثرین کی بحالی اور دیگر امدادی سرگرمیوں کیلئے دی گئی تھی تاہم شہباز شریف اور ان کے اہل خانہ نے امدادی رقم میں سے لاکھوں پاؤنڈز کی خرد برد کی اور منی لانڈرنگ کے ذریعے لاکھوں پاؤنڈز برطانیہ منتقل کئے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ برطانیہ منتقل کی گئی رقم امدادی رقم سے چرائی گئی۔ روزنامے نے دعویٰ کیا ہے کہ اس حوالے سے منی لانڈرنگ میں ملوث کئی افراد کے انٹرویوز کئے گئے ہیں جو ایک برطانوی شہری آفتاب محمود سمیت جیل میں بند ہیں۔ رپورٹ کے مطابق وزیر اعظم عمران خان نے بدعنوانی اور منی لانڈرنگ کے حوالے سے اعلیٰ سطح کی تحقیقات کے دوران کرپشن ، خرد برد اور منی لانڈرنگ کا انکشاف ہوا ہے۔ اخبار کے مطابق آفتاب محمود نے اپنے ایک انٹرویو میں دعویٰ کیا کہ اس نے شہباز شریف کے اہل خانہ کیلئے منی لانڈرنگ کی اور یہ رقوم برمنگھم منتقل کیں

جو بعدازاں شہباز شریف کے اہل خانہ کو منتقل کی گئیں۔ رپورٹ کے مطابق شہباز شریف کے داماد کو بھی زلزلہ متاثرین کی بحالی کیلئے قائم کئے گئے برطانیہ کے ایک فنڈ سے 10لاکھ پاؤنڈز دیئے گئے تھے جبکہ ڈی ایف آئی ڈی نے زلزلہ متاثرین کی امداد اور بحالی کیلئے مجموعی طور پر 5کروڑ 40 لاکھ پاؤنڈز فراہم کئے تھے،یہ پیسہ برطانیہ کے ٹیکس کی رقم سے دیا گیا تھا۔ مزید برآں پاکستان کے دیہی علاقوں میں غریب خواتین کو غربت سے نکالنے اور دیہی خاندانوں کو علاج معالجے کی سہولت کیلئے فراہم کی گئی امداد کے بارے میں بھی تحقیقات کی جارہی ہیں۔

برطانیہ کے اخبار نے گزشتہ سال سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف بھی انکشافات کئے تھے کہ انہوں نے لندن میں 32 ملین پاؤنڈ کی جائیداد بنائی ہے۔ بدقسمتی سے ڈی ایف آئی ڈی شہباز شریف کو تیسری دنیا کیلئے ایک مثالی شخص قرار دیتا رہا ہے اور گزشتہ سال ڈی ایف آئی ڈی کے پاکستان آفس کی سربراہ جوانا رولی اور ان کے رفیق کار رچرڈ منٹگمری نے اس امر کی تحقیق کئے بغیر کہ ان کے ٹیکس نادہندگان کا پیسہ کہاں خرچ ہو رہا ہے شہباز شریف کی کارکردگی کی تعریف کی تھی۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ تحقیق کرنے والوں کو یقین ہے کہ مبینہ طور پر چوری کی گئی رقوم جو برطانیہ منتقل کی گئیں ہیں وہ ڈی ایف آئی ڈی کے فنڈز پراجیکٹس سے چرائی گئی ہیں۔

2014ءکے بعد برطانیہ کسی بھی اور ملک کے مقابلے میں پاکستان کو زیادہ امداد دی جس کے تحت سالانہ 463 ملین پاؤنڈ دیے گئے۔ ڈیلی میل نے دعویٰ کیا ہے کہ امدادی رقوم میں سے لوٹی گئی دولت منی لانڈرنگ کے ذریعے برمنگھم منتقل کی گئی جو بعدازاں مبینہ طور پر شہباز شریف کے اہل خانہ کے برطانیہ کے بارکلیز اور ایچ ایس بی سی بینکوں کی برانچز کے اکاؤنٹس میں منتقل کی گئی۔ رپورٹ کے مطابق برمنگھم کے پاکستانی نثراد شہری آفتاب محمود نے منی لانڈرنگ کا اعتراف کیا ہے اور کہا ہے کہ برطانیہ کے ریونیو اور کسٹمز کی جانب سے اس کے اکاؤنٹس کو ہر تین ماہ کے بعد چیک کیا جاتا ہے لیکن برطانوی محکمہ کو منی لانڈرنگ کا پتہ نہ چل سکا۔ برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی اور پاکستانی ادارے مل کر اس حوالے مشترکہ تحقیقات کر رہے ہیں اور برطانیہ کے وزیر داخلہ شہباز شریف کے لندن میں پناہ لینے والے اہل خانہ کو ملک سے نکالنے کیلئے ممکنہ اقدامات پر تبادلہ خیال کر رہے ہیں۔

ڈی ایف آئی ڈی برطانیہ کی جانب سے فراہم کردہ امداد میں فراڈ اور کرپشن کے خاتمے کیلئے 1.75ملین پاؤنڈز کے منصوبہ پر کام کر رہا ہے لیکن پاکستانی حکام کو ابھی تک صرف ایک شخص کی جانب سے برطانوی فنڈز میں خرد برد کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ ڈیلی میل نے سابق انٹر نیشنل ڈویلپمنٹ سیکرٹری پریٹی پٹیل کا حوالہ دیتے ہئے لکھا ہے کہ انہوں نے اس حوالے سے تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ڈی ایف آئی ڈی کے کسی اور سیکرٹری آف سٹیٹ کی طرح یہ بات میرے لئے باعث تعجب ہے کہ برطانوی فنڈز کا غلط استعمال کیا گیا اور بالخصوص پاکستان میں غربت کے خاتمے کیلئے دی گئی امداد میں خرد برد کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ ہم بدعنوانی کے خاتمے کیلئے لاکھوں پاؤنڈز خرچ کر رہے ہیں لیکن ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ اب بھی برطانیہ منی لانڈرنگ کرنے والوں کیلئے ایک جنت کی حیثیت رکھتا ہے۔

ٹرانسپیرنسی انٹر نیشنل کے پالیسی ڈائریکٹر ڈنکن ہیمز کے مطابق کرپشن کا پہلا ثبوت منی لانڈرنگ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے بینکاری کے نظام میں اس حوالے سے پہلے مشکوک ٹرانزیکشنز کی نشاندہی ہوتی ہے اور پھر جب منی ٹریل کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ رقوم کہاں سے آئی ہیں، در حقیقت اسی وجہ سے شہباز شریف اور ان کے خاندانوں کے خلاف تحقیقات کا آغاز ہوا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ملک سے بدعنوانی کے خاتمے کے منشور پر انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے برطانیہ سے تعلیم یافتہ بیرسٹر کی سربراہی میں بدعنوانی کے تدارک کیلئے ایسٹ ریکوری یونٹ قائم کیا ہے جس کے لئے ایک خصوصی ٹیم تشکیل دی گئی ہے،

انہوں نے لاکھوں پاؤنڈز کی کئی مشکوک ٹرانزیکشنز کا جائزہ لیا ہے اور اس نتجے پر پہنچے ہیں کہ جب شہباز شریف اقتدار میں تھے تو ان کے اہل خانہ کے اثاثہ جات میں انتہائی تیزی سے اضافہ ہوا۔ برطانیہ کے اخبار نے ایک تحقیقاتی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ سال 2003ءمیں شہباز شریف کے اہل خانہ کے اثا ثے ایک لاکھ 50 ہزار پاؤنڈز تک بڑھ گئے، دوسری جائیدادوں کے ساتھ شہباز شریف لاہور میں 53 ہزار مربع فٹ کے محل نما گھر کے بھی مالک ہیں جس کی اپنی بہت بڑی سیکورٹی فورس ہے، رپورٹ کے مطابق خاندان کی آمدن ان کے اثاثوں سے مطابقت نہیں رکھتی۔ مزید برآں اثاثوں میں اضافہ منی لانڈرنگ کے دیگر کئی ذرائع سے بھی ہوا ہے جن میں برطانیہ میںکی گئی منی لانڈرنگ کا کردار مرکزی ہے۔ منی لانڈرنگ کی گئی رقوم شہباز شریف کے بچوں ، ان کی بیگم اور داماد علی عمران کو منتقل کی گئیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس منی لانڈرنگ سے سب سے زیادہ فائدہ شہباز شریف نے حاصل کیا اور انہوں نے اس رقم سے اپنی جائیدادوں میں اضافہ کیا اور کئی نئی جائیدادیں خریدیں جن میں سے ایک وہ عالی شان گھر ہے جس میں وہ رہائش پذیر ہیں۔ منی لانڈرنگ میں برمنگھم سے مرکزی کردار ادا کیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق برطانیہ اور متحدہ عرب امارات سے شہباز شریف کی بیگم ، دو بیٹوں اور دوبیٹیوں کے بینک اکاؤنٹس میں 202 مرتبہ ذاتی ٹرانزیکشنز سے رقم منتقل کی گئی ، پاکستانی قوانین کے تحت اس طرح کی رقوم موصول کرنے سے قبل انہیں یہ بات لکھ کر دینا ہوتی ہے کہ وہ رقوم بھیجنے والوں سے ذاتی طور پر واقف ہیں اور انہوں نے سرمایہ کاری کیلئے رقم بھیجی ہے ،

اس طرح شہباز شریف کے اہل خانہ نے بھی اعتراف کیا ہے تاہم تحقیق کاروں کا کہنا ہے کہ حقیقت کچھ اور ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے دیکھا ہے کہ برمنگھم سے منظور احمد نامی شخص نے شہباز شریف کی بیگم ، بیٹے حمزہ اور سلیمان کو 13 مرتبہ 1.2ملین پاؤنڈز منتقل کئے، اس شخص کو اس کے شناختی کارڈ نمبر سے شناخت کیا گیا ہے جو فارمز پر لکھا تھا۔ رپورٹ کے مطابق وہ دیہی علاقے میں اپنے گھر کے اندر ایک چھوٹی سے دکان چلاتا ہے جو چھوٹی چیزیں بیچ کر اپنا پیٹ پالتا ہے ،

اس شخص نے کہا ہے کہ میرے پاس کبھی بھی 1.2ملین پاؤنڈز نہیں تھے اور نہ ہی میں نے کبھی برطانیہ کا دورہ کیا ہے۔ایک اور شخص محبوب علی نے ایچ ایس بی سی کے ذریعے برمنگھم سے شہباز شریف کے خاندان کو 8 لاکھ 50 ہزار پاؤنڈز بھیجے جو لاہور کی گلیوں میں پھیری لگاتا ہے اور گلیوں میں گھوم پھر کر پرانے نوٹوں کے بدلے نئے نوٹ فراہم کرنے کے عوض معمولی کمیشن کماتا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جب اس حوالے سے تفتیش کرنے والے ایک اہلکار سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ جب میں لاہور میں اس شخص سے ملا تو وہ ڈر گیا اور کہنے لگا کہ جب مجھے معلوم ہوا کہ میری شناخت چرائی گئی ہے تو میں چکرا گیا، میں ان افراد میں سے کسی ایک سے بھی نہیں ملاہوں لیکن میرے پرانے گاہک سمجھتے ہیں کہ شاید میں نے کچھ ایسا کیا ہوگا۔

اس شخص نے کہا کہ اب میں شکنجبین بیچ کر اپنے بچوں کا بڑی مشکل سے پیٹ پالتا ہوں۔ شہباز شریف اور ان کے اہل خانہ کو اتنی بڑی رقوم بھیجنے والوں میں ایک برطانوی آفتاب محمود بھی شامل ہے جو برمنگھم کے سپارک بروک کے علاقے میں منی چینجنگ کی ایک فرم عثمان انٹر نیشنل کا مالک ہے۔اپریل میں دورہ پاکستان کے موقع پر جب اسے گرفتار کیا گیا تو اس نے لاہور کی جیل کے ایک کمرے میں مجھ سے ملاقات پر رضامندی ظاہر کی، اس نے وضاحت کی کہ منی لانڈرنگ کا کام کیسے کیا جاتا ہے،اس کا کہنا تھا کہ اسے پاکستان سے صرف مختلف ناموں پرمبنی ایک فیکس موصول ہوتی ہے جن کو میں نے رقم ادا کرنی ہوتی ہے ،

میں ان کو جانتا ہوں اور وہ معروف شخصیات ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ میرا کاروبار نہیں کہ میں ان سے پوچھوں کہ رقم کہاں سے آئی ہے ، میں صرف رقم منتقل کرتا ہوں اور میں یہ کام پراپر چینل سے کرتا ہوں۔ اس نے کہا کہ ایچ ایم آر سی ہر تین ماہ کے بعد میرا آڈٹ کرتا ہے وہ یہ یقین چاہتے ہیں کہ کہیں میں منی لانڈرنگ تو نہیں کرتا۔ اس نے کہا کہ اس سلسلے میں بینکس سے کوئی مسئلہ نہیں ہوتا اس لئے مجھے رقوم با آسانی ملتی ہیں۔ تحقیق کاروں نے کہا ہے کہ در حقیقت حکومتی ٹھیکوں ، کک بیکس اور کمیشن کی شکل میں ملنے والی رقوم محمود کے لاہور میں دفتر میں کام کرنے والے شاہد رفیق کے حوالے کی جاتی رہی ہیں اور جیل میں قید شاہد رفیق نے اس کی تصدیق بھی کی ہے اور کہا کہ مجھے معلوم نہیں تھا کہ یہ پیسے کہاں سے آ رہے ہیں ،

میں صرف اپنا کام کرتا تھا۔ شاہد رفیق کے حوالے سے مزید کہا گیا کہ رقوم کی منتقلی میں کوئی مشکل پیش نہ آئی کیونکہ محمود کی برمنگھم میں کام کرنے والی کمپنی کے ذریعے ہزاروں افراد اپنے پاکستانی رشتہ داروں کو پیسے بھیجتے تھے۔

اس نے بتایا کہ اگر مجھے کہا جائے کہ میں شہباز شریف کے بیٹوں کو ایک لاکھ پاؤنڈ بھیجوں تو مجھے اس وقت تک انتظار کرنا پڑتا ہے جب تک میرے برطانوی کسٹمرز اس رقم کے مساوی رقم پاکستان منتقل کرنے کیلئے نہ دے دیں۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ وہ اپنے کسی کسٹمر یا اس کے رشتہ دار کی جانب سے فراہم کردہ رقم جھوٹے ناموں سے شہباز شریف اور اس کے اہل خانہ کے اکاؤنٹس میں جمع کراتا تھا۔ لاہور میں شاہد رفیق لکش بوائز کی جانب سے لائی گئی رقم مختلف ناموں سے دیگر اکاؤنٹس میںجمع کرائی جاتی۔ تحقیق کاروں نے کہا ہے کہ غلط ناموں سے منتقل کی گئی رقم کا اندازہ 21 ملین پاؤنڈ تک ہے لیکن یہ منی لانڈرنگ کی گئی مجموعی رقوم میں سے ایک معمولی حصہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے مزید کئی گھوسٹ سرمایہ کاروں کا بھی سراغ لگایا ہے جنہوں نے 9.1 ملین پاؤنڈز کی بے بنیاد سرمایہ کاری کی ہے جن کا کوئی وجود نہیں۔ اسی طرح شہباز شریف کے اہل خانہ جھوٹے اکاؤنٹس کی بنیاد پر سرمایہ کاری اور بینکوں سے قرضے بھی حاصل کئے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس کا حجم 160ملین پاؤنڈز تک مزید بڑھ سکتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق منی لانڈرنگ کے ادارے کے قیام کے بعد تحقیقات کا عمل دوسرے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے اور اس بات کا پتہ چلایا جا رہا ہے کہ یہ پیسہ کہاں سے اور کیسے چرا کر منی لانڈرنگ کیا گیا ، اس طرح کا ایک کیس پہلے سے ہی عدالت میں ہے۔ پاکستان میں زلزلہ متاثرین کی بحالی کیلئے کام کرنے والے ادارے ایرا کے سابق فنانس ڈائریکٹر اکرام نوید نے کہا کہ ادارے کو 2005ءمیں قیام سے 2012ءکے دوران ڈی ایف آئی ڈی سے 54 ملین پاؤنڈز ملے، یہ رقم بحالی اور طویل مدت کے دوسرے منصوبوں کیلئے تھی۔ اکرام نوید کے بارے میں پاکستان میں کہا جاتا ہے کہ شہباز شریف کے داماد علی عمران کا دست راست ہے۔نوید نے اپنے جرم کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ جب ڈی ایف آئی ڈی ایرا کو فنڈز دے رہا تھا تو اس نے 1.5ملین پاؤنڈز کی خرد برد کی جس میں سے ایک ملین پاؤنڈز علی عمران کو دیے گئے۔ اکرام نوید نے مزید کہا کہ اس میں نصف رقم براہ راست ایرا کے اکاؤنٹس سے منتقل کی گئی

جس کی تصدیق بینک سے بھی ہوتی ہے۔ منی لانڈرنگ کے تفتیش کاروں نے اس حوالے سے علی عمران سے موقف لینے اور سوالوں کا جواب دینے کیلئے طلب کیا تو وہ پیش نہ ہوا کیونکہ وہ لندن میں ہے اور اس سلسلے میں کوئی جواب نہیں دینا چاہتا۔ علی عمران نے لندن کے اخبار کی جانب سے وضاحت کی درخواست میں بھی اپنا رد عمل نہ دیا۔ خاندان کے دیگر افراد جنہوں نے منی لانڈرنگ سے رقوم وصول کی ہیں وہ بھی لندن میں پناہ گزین ہے جن میں شہباز شریف کا بیٹا سلیمان شہباز بھی شامل ہے۔ اخبار نے ڈی ایف آئی ڈی کی اپنی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایرا میں احتساب کا کوئی شفاف نظام موجود نہیں لیکن اس کے باوجود ایرا کو بھاری رقوم دی گئیں، ڈی ایف آئی ڈی کی جانب سے امداد ادارے کے بجٹ سے دی گئی۔ گزشتہ روز ڈی ایف آئی ڈی کے ترجمان نے کہا کہ ادارے کی جانب سے ایرا کی مالی معاونت نتائج کے حصول کیلئے تھی جس کا مطلب ہے کہ اس رقم سے سکولوں کی تعمیر اور دیگر بحالی کے کام کئے جائیں ، برطانیہ کے ٹیکس دہندگان کا پیسہ زلزلہ کے متاثرین کی مدد کیلئے دیا گیا تھا

لیکن افسوس ہے کہ نظام کی وجہ سے برطانوی ٹیکس دہندگان کے پیسے کا تحفظ نہ کیا جا سکا، تفتیش کار اس وقت ڈی ایف آئی ڈی کے دیگر منصوبوں کیلئے بھی فراہم کی جانے والی امدادی رقوم کا جائزہ لے رہے ہیں۔ پاکستان نیشنل کیش ٹرانسفر پروگرام کے تحت ڈی ایف آئی ڈی 2012ءسے اب تک 300 ملین پاؤنڈز سے زیادہ فراہم کر چکا ہے جو غریب خاندانوں کی ماؤں کو فی کس ماہانہ ایک سو پاؤنڈز کی فراہمی کیلئے ہے۔ عمران خان کے اقتدار میں آنے سے قبل غلط ادائیگیوں کے حوالے سے تحقیق شروع کی گئی لیکن جب شہباز شریف کی جماعت اقتدار میں تھی تو تحقیقات بند کر دی گئیں۔ اب دوبارہ آغاز کیا گیا ہے اور تفتیش کار جائزہ لے رہے ہیں

کہ کیا رقوم کا درست استعمال کیا گیا یا نہیں، اسی طرح ماں اور بچے کی صحت کے پروگرام کے بارے میں تفتیش کی جا رہی ہے ، ادھر شہباز شریف کو نیب پہلے بھی کئی بار طلب کر چکا ہے اور ان کے بیٹے حمزہ شہباز نیب کی تحویل میں ہیں۔ میڈیا سے بات کرتے ہوئے سلیمان شہباز نے کہا کہ یہ میرے خاندان کے خلاف سازش ہے یہ اسی طرح ہے جس طرح گوانتا ناموبے میں کیا گیا تھا۔ انہوں نے اپوزیشن کا منہ بند کرنے کیلئے حکومت کا دباؤ قرار دیا اور کہا کہ ان کے اہل خانہ کو ہراساں کرنے کے لیے حربے استعمال کئے جا رہے ہیں۔ پاپڑ بیچنے والوں اور دیگر ذرائع سے رقوم کی وصولی کے سوال پر انہوں نے کہا کہ قانون میں ترسیلات کی وصولی کی اجازت ہے اور میں نے ایک ایک پیسہ قانونی ذرائع سے وصول کیا جس کو اسٹیٹ بینک نے بھی کلیئر کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

ملائکہ اروڑا کا سابق شوہر ارباز خان کیساتھ فیملی ڈنر، ویڈیو وائرل

ممبئی: بالی ووڈ اداکارہ و ماڈل ملائکہ اروڑا نے اپنے سابق شوہر ارباز خان اور اُن کی …