قائداعظم یونیورسٹی میں دو ہفتوں سے جاری طلبا کا احتجاج مذاکرات کامیاب ہونے پر ختم

اسلام آباد (میڈیا پاکستان) پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کی سب سے بڑی سرکاری جامعہ قائداعظم یونیورسٹی میں گذشتہ دو ہفتوں سے تعلیمی سرگرمیوں میں تعطل بلآخر مذاکرات کے بعد ختم ہو گیا ہے۔خیال رہے کہ یونیورسٹی کے طلبا حال ہی میں دیگر کئی مطالبات کے علاوہ فیسوں میں کیے گئے اضافے کو واپس لینے کے لیے احتجاج کر رہے تھے۔نامہ نگار عبید ملک کے مطابق یونیورسٹی میں باضابطہ تدریسی عمل آئندہ پیر سے شروع ہونے کا امکان ہے۔یونیورسٹی انتظامیہ نے احتجاج کرنے والے طلبا کی طرف سے پیش کیے جانے والے 13 مطالبات میں سے ایک کو مانتے ہوئے فیسوں میں فوری طور پر10 فیصد کمی کا اعلان کیا ہے جب کہ باقی 12 مطالبات پر وائس چانسلر نے یونیورسٹی کی سینڈیکیٹ کمیٹی کا اجلاس طلب کیا ہے۔اس سے پہلے یونیورسٹی کی ویب سائٹ پر وائس چانسلر کی جانب سے جمعرات کو طلبا کو یہ پیغام دیا گیا کہ جامعہ کو تعلیمی سرگرمیوں کے لیے دوبارہ کھولا جا رہا ہے۔ جس پر احتجاج کرنے والے طلبا نے یونیورسٹی کے مرکزی راستے کو پتھروں، خاردار تاروں اور دیگر رکاوٹوں سے بند کر دیا تھا۔یونیورسٹی میں احتجاجی کیمپ میں بیٹھے چند طلبا کا کہنا تھا کہ’جب ہم یہاں احتجاج کر رہے ہیں اور ہم سے انتظامیہ نے کوئی بات نہیں کی ہمارے مطالبات منظور نہیں ہوئے تو یونیورسٹی میں کیسے تعلیمی سرگرمیاں شروع ہو سکتی ہیں۔اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر نے جمعے کو کامیاب مذاکرات کا اعلان کیا۔قائد اعظم یونیورسٹی میں یہ احتجاج اور طلبا کی یہ ہڑتال کوئی پہلی مرتبہ نہیں ہوئی۔ انتظامیہ طلبا کے کُچھ مطالبات ماننے کو تو تیار ہے مگر کُچھ مطالبات ایسے ہیں جن پر یونیورسٹی اپنے فیصلوں کو واپس لینے کو تیار نہیں تھی۔یونیورسٹی میں اس سال جولائی میں دو لسانی طلبا تنظیموں کے درمیان ایک جھگڑا ہوا جس میں بہت سے طلبا شدید زخمی ہوئے، طلبا کے اس تصادم کو ختم کروانے کے لیے انتظامیہ کو پولیس کی مدد لینی پڑی۔ اور بعد ازاں اس جھگڑے کی وجہ اور اس میں ملوث طلبا کو انتظامیہ نے جامعہ سے نکال دیا تھا۔اس جھڑپ کی ویڈیو بھی سامنے آئی تھی جس میں درجنوں طلبہ ایک دوسرے سے گتھم گتھا دیکھے گئے تھے۔ اس جھڑپ میں کئی درجن طلبہ زخمی ہوئے تھے۔ پولیس کو آنسو گیس اور لاٹھی چارج کا استعمال بھی کرنا پڑا تھا۔
مشال خان کی مردان یونورسٹی میں ہلاکت کے بعد اسلام آباد کے بڑے تعلیمی ادارے میں اس قسم کے پرتشدد رجحانات کو دیکھ کر صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔ اس ویڈیو کے سامنے آنے پر پاکستانی پارلیمان میں بھی ان حالات پر بات ہوئی اور ایوان بالا نے طلبہ یونین بحال کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔اس تازہ احتجاجی مظاہرے میں طلبا نے انتظامیہ کے سامنے 13 مطالبات رکھے جن میں یونیورسٹی سے نکالے جانے والے طلبا کی جامعہ میں واپسی، طلبا کے لیے سفری سہولیات کے نظام کو بہتر کیا جانا، پیرامیڈکس سمیت دیگر غیر رجسٹرڈ شعبہ جات کی رجسٹریشن اور فیسوں میں ہونے والے اضافے کو واپس لیے جانے کے مطالبات شامل ہیں۔احتجاج کرنے والے طلبا سے اُن کے مطالبات اور احتجاج پر بات چیت کے لیے آنے والی عوامی نیشنل پارٹی کی سینیٹر ستارہ ایاز نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘ہم نے طلبا کی بات سُنی، ان کے مطالبات ہم جامعہ کی انتظامیہ اور سینیٹ میں بھی اُٹھائیں گے اور کوشش کریں گے کہ ان کے تمام جائز مطالبات منظور کروائے جائیں۔ یوٹیورسٹی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ احتجاج کرنے والوں کا اصل مطالبہ جھڑپوں میں ملوث پائے گئے طلبا کی بحالی تھا جنہیں نکال دیا گیا تھا۔ تاہم اسی معاملے پر جب یونیورسٹی کی سینڈیکیٹ کمیٹی کے سابق رُکن اور سینیئر لیکچرار وحید احمد سے رابطہ کیا گیا تو اُنھوں نے کہا کہ ‘اگر جامعہ کے قوانین کو توڑنے والے طلبا کو واپس یونیورسٹی میں داخل کیا گیا تو اگلا احتجاج اساتذہ کریں گے۔پروفیسر وحید کا مزید یہ بھی کہنا تھا کہ’ایک عرصے سے یونیورسٹی کے تعلیمی معیار کو تنزلی کی طرف لے جانے کی سازش کی جا رہی ہے اور اس امر کے لیے سٹوڈنٹ یونینز اور طلبا کے لسانی گروپس کو استعمال کیا جا رہا ہے۔قائداعظم یونیورسٹی میں طلبا کی کُل تعداد تقریباً دس سے گیارہ ہزار کے قریب ہے جن میں سے اکثر جامعہ میں اس احتجاج کی روایت کو مناسب نہیں سمجھتے۔ اُن کا یہ ماننا ہے کہ اگر جامعہ میں احتجاج اور دھرنے اسی طرح جاری رہے تو اس کے اُن کے مستقبل پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

یہ بھی پڑھیں

پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان پہلا ٹیسٹ ڈرا ہوگیا

 کراچی: پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان دو میچوں پر مشتمل سیریز کا پہلا ٹیسٹ میچ …