گزشتہ سال قانون کی ایک نوجوان طالبہ، خدیجہ پر انہی کے ہم جماعت نے خنجر سے حملہ کیا۔ یہ واقعہ 3 مئی 2016 کو لاہور کے ڈیوس روڈ، جہاں خدیجہ اپنی چھوٹی بہن کو اسکول سے لینے گئی ہوئی تھیں، پر دن دہاڑے پیش آیا۔ گلے سمیت جسم پر خنجر کے 23 حملوں کے باوجود وہ معجزانہ طور پر زندہ بچ گئیں۔ خدیجہ نے بڑی دلیری کے ساتھ انصاف کے حصول کی جدوجہد کا آغاز کیا اور گزشتہ ماہ لاہور کی ایک عدالت نے حملہ آور، جو کہ ایک ایڈووکیٹ کا بیٹا ہے، کو 7 سال قید کی سزا سنائی۔ وہ اپنی زندگی کی جیت اور اپنی قانونی فتح کو، ایک زیادہ معنی خیز زندگی گزارنے کے ایک موقعے کے طور پر تصور کرتی ہیں۔
وہ عدالتی کارروائیوں کو ‘ٹرائل’ پکارتے ہیں اور وہ واقعی ایک ٹرائل ہی تھا۔ وہ ٹرائل نہ صرف اُس قانون کے لیے تھا جو میرے زخموں کا حساب لینے کا حق فراہم کرتا ہے، بلکہ یہ ٹرائل میری روح کا تھا، یہ ٹرائل میرے صبر کا تھا، اور سب سے بڑھ کہ یہ میری عزت، وقار اور کردار کا بھی ٹرائل تھا۔
13 اور 14 جولائی کو، وکیلِ دفاع نے مجھ سے جرح کیا۔ میں جیسے ہی مردوں سے بھرے ہوئے کمرہ عدالت میں کھڑی ہوتی تو جی متلانے لگتا۔ وہ کارروائیاں تھکا دینے والے 6 طویل گھنٹوں تک چلیں۔
اس بات کی حقیقت، اس پر یقین کرنے جتنی ہی مشکل ہے کہ وکیلِ دفاع نے میرے پیچھے کرائے کے آدمی کھڑے کروائے تھے جو موقع ملنے پر دبی ہنسی ہنستے اور ہراساں کرتے۔ ان کی محدود ترین ذہنیت اور بوسیدہ روحیں سب کے سامنے عیاں تھیں۔ میرے جسم کے اندر اس قدر بے چینی بڑھ جاتی تھی کہ وہاں سے بھاگ جاؤں۔
مگر وکیل لڑکوں کے اس کلب میں ان کی ایسی ہیبت ناک چالوں سے اور کچھ تو نہیں لیکن ڈٹے رہنے کا میرا عزم مزید پختہ ہوا، اور میرے ذہن میں صرف ایک ہی آواز گونجتی کہ: سچ ضرور ثابت ہوگا۔
میں ان پاکستانی لڑکیوں اور خواتین کی لڑائی لڑنے کے لیے پرعزم تھی جو سخت گیر اور بے حس مردوں اور انہیں درست کہنے والی خواتین کے آگے اپنی تکلیف ظاہر کرنے کے بجائے خاموشی کے ساتھ تکلیف جھیلتی ہیں۔
لیکن میرے ساتھ صورتحال شروع سے ہی ایسی نہیں تھی۔
ابتدا میں تو میں صرف خود کو پھر سے محفوظ محسوس کرنا چاہتی تھی— کہ وہ شخص جس نے مجھے زخمی کیا، مجھے جان سے مارنے کی کوشش کی، وہ سلاخوں کے پیچھے ہو، تا کہ میں گھر سے باہر بے خوف ہو کر چل سکوں۔
جب ٹرائل شروع ہوا تو میری سوچ میں بڑی حد تک تبدیلی آئی۔
میں نے محسوس کیا کہ یہ صرف میرے بارے میں نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق میری ذات سے بڑھ کر ہے۔ یہ ہر اس پاکستانی خاتون کے بارے میں ہے جو روزانہ کی بنیاد پر کسی نہ کسی قسم کے تشدد کا شکار بنتی ہے، لیکن انصاف سے محروم رہتی ہے اور ان کی روح ہمیشہ خوف کے سائے میں رہتی ہے۔
اور یوں میں نے سخت جان ہو کر اپنے اندر یہ تہیہ کر لیا کہ وہ شخص خود کو یہاں سے بچا نہیں سکتا، اس نے جو کیا ہے اسے اس کی سزا ضرور بھگتنی پڑے گی۔
مجھے نہیں لگتا کہ مخالف وکیل تھوڑی سی بھی اخلاقی اقدار کے مالک ہوں گے۔ انہوں نے اپنے مؤکل کو بچانے کی خاطر مجھ پر جو کیچڑ اچھالا، کیا وہ اس لیے تھا کہ ٹرائل میں گہرائی تک پیوستہ زہریلی مردانگی آشکار ہوئی تھی؟
مقدمہ جیتنے کی خاطر انہوں نے اپنے ضمیر کی ایک بھی آواز نہ سنی، جبکہ انہیں معلوم تھا کہ وہ مجرم ہے اور اس کی جیت سے اخلاقیات پامال ہوگی۔
میں جج صاحب کے سامنے کھڑی ہوتی اور مخالف وکیل کے بے بنیاد الزامات اور مکارانہ چالوں کا سامنا کرتی رہی۔ مجھے اس بات کا اندازہ تھا کیوں کہ ان کے پاس کوئی ٹھوس دلائل نہیں لہٰذا انہیں میری ذاتیات پر حملے تو کرنے ہی تھے۔
وکیلِ دفاع نے تمام حدیں پار کر دی تھیں، انہوں نے اپنی ذات میں موجود ناشائستگی کے تمام روپ دکھائے۔ ہر وہ خاتون جو پاکستان کی عدالتوں میں اپنی التجائیں لے کر پہنچتی ہے، اسے اسی صورتحال کی ہی توقع ہوتی ہے۔
لہٰذا وکیلِ دفاع نے مجھے ایک ‘مشکوک کردار کی حامل خاتون’ کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی، کہ جو کئی ’ناجائز’ تعلقات رکھتی ہے۔ میں نے تو تھوڑی دیر کے لیے اس بہتان بازی کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کا بھی سوچا۔
ان کے سوالات میری ذاتی زندگی کے گرد ہی گھومتے:
"کیا یہ سچ ہے کہ آپ لاہور کے پوش علاقے میں رہتی ہیں؟ کیا سچ ہے کہ آپ ایک ماڈرن لڑکی ہیں؟”
تو کیا پوش علاقے میں رہنے والی ’ماڈرن لڑکی’ کا قتل کوئی جرم نہیں یا وہ اپنے اوپر حملہ کرنے والے کو انصاف کے کٹہرے میں نہیں لا سکتی؟
اور ہاں لڑکیو، خبردار رہیں، اگر آپ کی اپنے مرد کزنز، اداکاروں یا ماڈلز کے ساتھ تصاویر ہیں تو عین ممکن ہے کہ آپ کو ایک ’ڈھیلے کردار’ والی لڑکی کے طور پر پیش کیا جائے۔
میں خود کو ایک متاثرہ یا بچ جانے والے کے طور پر دیکھنا نہیں چاہتی، بلکہ ایک ایسی مضبوط خاتون کے طور پر نظر آنا چاہتی ہوں جو اپنی زندگی اور آگے بڑھنے کی راہ میں حائل تمام رکاوٹوں کو عبور کرنے کا حوصلہ رکھتی ہے۔ نہ صرف میں خود چیلنجز پر سبقت پا رہی ہوں بلکہ مجھ جیسی صورتحال میں پھنسی دیگر خواتین کی مدد کا ارادہ رکھتی ہوں۔
میری کہانی، ایسی دیگر کہانیوں کی طرح، ہمیشہ ان لوگوں کو متاثر کرنے کا باعث بنے گی، جو کبھی ہار نہیں مانتے اور اپنے عزم پر ڈٹے رہتے ہیں۔
ہر گزرتے دن کے ساتھ میرے نوجوان سوالات کے جواب ملتے جا رہے ہیں۔ میں بطور ایک عورت، اپنے وجود کا مقصد دیکھ سکتی ہوں۔ مجھے سمجھ آ گیا ہے کہ بطور ایک ذمہ پاکستانی شہری میرا فرض کیا ہے: کہ ظلم کا شکار بننے والوں کی مدد کرنا اور ان کے لیے آواز اٹھانا، جو کہیں کھو گئی یا پھر کبھی اٹھائی ہی نہیں گئی۔
میں کبھی انتہائی عاجز اور تکلیف سے دوچار تھی، لیکن پھر اپنے اعتماد میں پختگی کو پایا اور فولادی عزم کے ساتھ ‘اسٹیٹس کو’ کو چیلنج کرنے اٹھی۔ میں فتح یاب ہوئی اور ہر جگہ میری آواز سنی گئی۔
14 تکلیف دہ مہینوں بعد 29 جولائی 2017 کو عدالتی فیصلے میں مجھ پر حملہ کرنے والے کو سزا سنائی گئی۔
اس تاریخی دن تک کا سفر کٹھن ضرور تھا لیکن ضائع نہیں ہوا کیونکہ وہ آدمی جس نے ایک معصوم جسم پر خنجر کے 23 وار کیے تھے، اب ایک عرصے تک چین کی نیند نہیں سو پائے گا۔ اس کے والد، جو لوگوں کو قید سے بچانے کی خاطر لڑائیاں لڑتے ہیں، اب جیل میں قید ایک مجرم بیٹے کے باپ ہیں۔
تو، زندگی میں ملنے والے اس دوسرے موقعے کو میں نے تبدیلی لانے کے لیے وقف کر دیا۔ اور اس کی میں نے ابھی صرف شروعات ہی کی ہے۔