(میڈیا92نیوز/تجزیہ عمر خالد)
28 مئی 2025 کا سورج طلوع ہو رہا تھا، مگر تکبیر کہنے والے پتا نہیں کہاں مر گئے تھے
سن 2025 میں کشمیر میں اٹھنے والی دہشت گردی کی لہر نے ایک نیا رخ اختیار کر لیا، مجاہدین نے بمبئی کے 4 مختلف سکولوں میں بچوں کو یرغمال بنا لیا۔ چالیس کے قریب ان مجاہدین نے 1000 بچوں کو موت کے گھاٹ اتار کر پشاور سکول کے واقع کو معمولی ثابت کر دیا، پوری دنیا سے ان واقعات کی مذمت ہوئی اڑتالیس گھنٹوں کی کاروائی کے بعد ہندوستانی پیراملٹری فورسس نے ان دہشت گردوں کو زیر کیا، ان میں سے چار کو زندہ پکڑا گیا۔ اور چند دن بعد ان دہشتگردوں کے بیانات جاری کئے گئے، ان بیانات میں انہوں نے اعتراف کیا کہ انہوں نے جنگجو تربیت پاکستان میں لشکر طیبہ سے حاصل کی۔ اس پر ہندوستان نے اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں پاکستان کے خلاف قرارداد پیش کی جس میں پاکستان کو دہشت گرد ریاست قرار دینے کا مطالبہ کیا گیا، مگر ہمیشہ کی طرح چین نے اس قرارداد کو ویٹو کر دیا۔ مگر عالمی برادری نے پاکستان سے دہشتگردی کے ذمہ داروں کو سزا دلوانے میں تعاون کی مانگ کی۔ پچھلے کئی سالوں کے دوران پانی کے تنازع پر پہلے سے کشیدہ حالات مزید کشیدہ ہو گئے۔ بارڈر پر نا ختم ہونے والا فائرنگ کا سلسہ شروع ہو گیا۔
اسی دوران بھارتی فضائیہ نے فورٹ عباس میں موجود لشکر طیبہ کے دو مدرسوں پر بھاری بمب گرائے اور ان کو مکمل طور پر مسمار کر دیا، جس سے 400 معصوم طلبہ کی شہادت ہو گئی۔ پاکستانی فضائیہ نے بگھلیہار ڈیم پر بم گرا کر اس کو شدید نقصان پہنچایا دو دن بعد ڈیم منہدم ہوا، پانی کے ریلے سے پاکستان اور ہندوستان دونوں ہی میں تباہی ہوئی۔ اس موقع پر ہندوستان کی انتہا پسند تنظیموں نے حکومت پر زور ڈالا کہ پاکستان کو اس کے کئے کی سزا ملنی چاہیے۔ سرکار بنیادی طور پر جنگ اور مخالفت کو طول دینے کے خلاف تھی، مگر اسی دوران وزیر اعظم پر نو کانفیڈنس موشن لانچ کر دیا گیا، اور وزیر اعظم برطرف ہو گئے۔ سرکار کے اتحادیوں نے ساتھ چھوڑا اور اپوزیشن پارٹیوں کے ساتھ الحاق کے بعد نیا وزیر اعظم اس نعرے پر لایا گیا کہ پاکستان کے خلاف سخت کاروائی کی جائیگی۔
اسی دوران عالمی پریشر کے باعث پاکستانی جمہوری حکومت نے سکول یرغمال دہشتگردی کے ذمہ داروں کو کو ہندوستان کے حوالے کرنے کی ٹھانی، جب لوگ گرفتار ہوئے تو اسلامی جماعتوں نے پشاور سے کراچی تک شہروں کو بند کر دیا، فیڈرل ہوم منسٹر پر حملہ ہوا جس میں وہ جانبر نہ ہو سکے۔ ملک کے تمام بڑے شہروں میں کرفیو لگا دیا گیا۔ کئی بڑے بڑے علمائ گرفتار ہو گئے۔ حالات مزید کشیدہ ہو گئے۔ فوج طلب ہوئی اور مذہبی تنظیموں اور فوج کے درمیان بڑے پیمانے پر کشمکش شروع ہوئی۔ ملگ گیر جھڑپوں میں سینکڑوں کی تعداد میں لوگ مارے گئے۔ پاکستان میں خانہ جنگی کی صورتحال پیدا ہونے لگی۔ اسی دوران پاکستانی فوج نے سیاسی حکومت کی گرتی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے مارشل لا نافظ کر دیا۔ مگر اب فوج اور مذہبی تنظیمیں برسر پیکار ہو چکی تھی۔ فوج نے اعلان کیا کہ کوئی بھی پاکستانی شہری ہندوستان کے حوالے نہیں کیا جائے گا، مگر پانی سر سے گزر چکا تھا، اب مولوی گزشتہ دنوں ہوئے فساد میں مارے جانے والے سینکڑوں کارکنوں کی شہادت کے ذمہ داروں کی پھانسی کی مانگ کر رہے تھے۔ صورتحال مزید کشیدہ ہوئی۔ دھشتگردوں نے کاکول ملٹری اکیڈمی پر حملہ کر کے کئی زیر تربیت افسروں کو یرغمال بنا لیا۔ پاکستانی پیراملٹری فورسز کی بروقت کاروائی سے تمام دہشت گرد مارے گئے اور دس زیر تربیت افسروں کی شہادت ہو گئی۔ مگر اسی دوران ملک کی بڑی مذہبی تنظیموں کے خلاف اپریشن کیا گیا، بڑے پیمانے پر اسلحہ قابو میں لے لیا گیا۔ مگر آگ مزید بھڑک اٹھی مدرسوں اور مسجدوں میں فوج کی طاقت ک…
