فیض آباد دھرنا: مظاہرین کے خلاف آپریشن ، سینکڑوں زخمی

اسلام آباد (ایم نائن ٹو ڈاٹ ٹی وی ) اسلام آباد میں فیض آباد انٹر چینج پر 7 نومبر سے دھرنے پر بیٹھے مذہبی جماعتوں کے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے سیکیورٹی اہلکاروں کی جانب سے آپریشن کا آغاز کردیا گیا۔خیال رہے کہ دھرنے کے شرکاء کو صبح 7 بجے تک دھرنا ختم کرنے کی حتمی ڈیڈ لائن دی گئی تھی تاہم ڈیڈ لائن کے ختم ہونے کے بعد 8 ہزار سے زائد سیکیورٹی اہلکاروں نے دھرنے کے شرکاء کو چاروں اطراف سے گھیر کر آپریشن کا آغاز کردیا۔دھرنے کے شرکاء کے پاس شیلنگ سے بچنے کے لیے ماسک اور پتھراؤ کے لیے گُلیل موجود ہیں جس سے مسلسل سیکیورٹی اہلکاروں پر پتھراؤ کیا جارہا ہے۔

دھرنے کے شرکاء کو سیکیورٹی اہلکاروں نے چاروں اطراف سے گھیر لیا اور مظاہرین سے جھڑپیں ہوئیں جس کے نتیجے میں متعدد مظاہرین زخمی ہوگئے جبکہ پولیس کے مطابق 150 سے زائد افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے ۔

کچھ دیر بعد دھرنے پر مامور شرکاء پر ایک بار پھر سیکیورٹی اہلکاروں کی جانب سے اکھٹے مارچ کیا گیا جس میں آنسو گیس کے شیل اور ربڑ کی گولیاں بھی فائر کی جاتی رہیں جس کی وجہ سے مظاہرین بکھر نے پر مجبور ہوگئے۔غیر ملکی خبر رساں ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے تحریک لبیک پاکستان کے ترجمان اعجاز اشرفی کا کہنا تھا کہ ‘ہمارے ہزاروں افراد یہاں موجود ہیں، اور ہم بھاگیں گے نہیں بلکہ آخری دم تک پوری قوت سے مقابلہ کریں گے۔خبر رساں ادارے اے پی پی کے مطابق سینیئر پولیس حکام کا کہنا تھا کہ ‘عدالتی احکامات کے مطابق ہم فیض آباد کا علاقہ خالی کرالیں گے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘ہماری پوری کوشش ہے کہ کوئی جانی نقصان نہ ہو۔پولیس اہلکاروں کی جانب سے دھرنے کے مقام پر مظاہرین کی خیمہ بستی بھی خالی کرالی گئی اور وہاں موجود ان کا سامان بھی جلادیا گیا۔سنگین صورتحال کے پیش نظر دھرنے کے مقام پر ایمبولینسز بھی منگوائی گئیں

جبکہ اسلام آباد اور راولپنڈی کے ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی۔مظاہرین نے اب تک مبینہ طور پر دو پولیس کی گاڑیوں کو لوٹ لیا ہے جبکہ دو پولیس کی وین کو راولپنڈی شہر میں نظر آتش بھی کیا جا چکا ہے۔

پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنس (پمز) ہسپتال کی انتظامیہ کے مطابق اب تک 67 زخمیوں کو ہسپتال لایا گیا ہے جن میں اسلام آباد پولیس کے 26 اور ایف سی 9 اہلکار شامل ہیں جبکہ بقیہ زخمی افراد مظاہرین اور عام افراد بھی شامل ہیں۔

اسلام آباد آپریشن کے بعد دیگر شہروں میں احتجاجی مظاہرے
کراچی کے علاقے نمائش چورنگی پر بھی مذہبی جماعت کی حمایت میں جاری دھرنے پر بیٹھے شرکاء کو منتشر کرنے کے لیے سیکیورٹی اہلکاروں نے تیاری کرلی۔علاوہ ازیں کراچی کے علاقے اسٹار گیٹ، ابو الحسن اصفحانی، ٹاور اور سپر ہائی وے پر بھی احتجاجی مظاہرے کے باعث شدید ٹریفک جام ہوگیا ہے۔تاہم شاہراہ فیصل پر جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے قریب اسٹار گیٹ کے مقام پر مظاہرین پر پولیس کی جانب سے شیلنگ کرکے منتشر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔علاوہ ازیں لاہور کے مختلف علاقوں میں بھی مذہبی جماعت کے کارکنوں نے اسلام آباد آپریشن کے خلاف احتجاجی مظاہرہ شروع کردیا جس کی وجہ سے ٹریفک کی روانی معطل ہوگئی۔

اسلام آباد میں مذہبی جماعتوں کا مظاہرہ
خیال رہے کہ سنی تحریک اور تحریک لبیک پاکستان کے سیکڑوں رہنماؤں، کارکنوں اور حامیوں نے اسلام آباد کے فیض آباد انٹر چینج پر گزشتہ 18 روز سے دھرنا دے رکھا ہے۔دھرنے میں شامل مذہبی جماعتوں کا حکومت سے مطالبہ ہے کہ وہ حال ہی میں ختم نبوت کے حوالے سے انتخابات کے اُمید وار کے حلف نامے میں کی جانے والی تبدیلی کے ذمہ داروں کی نشاندہی کرتے ہوئے انہیں عہدوں سے ہٹائیں۔یاد رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے 17 نومبر کو ضلعی انتظامیہ کو فیض آباد انٹر چینج پر موجود مذہبی جماعتوں کے مظاہرین کو ہٹانے کا حکم جاری کیا تھا۔اس حکم نامے سے ایک روز قبل (16 نومبر کو) اسلام آباد ہائی کورٹ نے آئین میں ختم بنوت کی شق کو مبینہ طور پر تبدیل کرنے والے ذمہ داروں کے استعفے کا مطالبہ کرنے والے مذہبی جماعتوں کے مظاہرین کو اپنا دھرنا فوری ختم کرنے کی ہدایت کی تھی۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے انتظامیہ کو 24 گھنٹوں کے اندر ہی دھرنے کو ختم کرنے کی ہدایت کی تھی تاہم عدالت کی جانب سے دی گئی مہلت کا وقت ختم ہونے کے بعد فیض آباد انٹرچینج کی صورت حال میں کافی تناؤ پیدا ہوا جبکہ وزیرداخلہ احسن اقبال کے حکم پر آپریشن کو 24 گھنٹوں کے لیے مؤخر کردیا گیا تھا۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے عدالتی حکم کے باوجود دھرنے کے شرکاء کو نہ ہٹانے پر اظہارِ برہمی کرتے ہوئے وفاقی وزیرِ داخلہ احسن اقبال کو عدالت میں طلب کیا تھا۔وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے گزشتہ روز احتساب عدالت میں کہا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر ضرور کارروائی کی جائے گی تاہم عدالت سے دھرنا ختم کرانے کے لیے 48 گھنٹوں کی مہلت دی جائے۔تاہم عدالت نے فیض آباد دھرنا ختم کرانے کے لیے انتظامیہ کو 23 نومبر تک کا وقت دے دیا تھا جبکہ سیکرٹری داخلہ، انسپکٹر جنرل (آئی جی) اسلام آباد پولیس اور چیف کمشنر اسلام آباد کو شوکاز نوٹسز جاری کردیئے تھے۔22 نومبر کو وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے فیض آباد انٹر چینج پر سیکیورٹی اہلکاروں اور دھرنے پر موجود مظاہرین کے درمیان تصادم کے نتیجے میں پولیس اور فرنٹیئر کانسٹیبلری (ایف سی) کے درجنوں اہلکاروں سمیت متعدد افراد زخمی ہوگئے تھے۔23 نومبر کو سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کو دھرنے والوں کی کھانے پینے کی سپلائی لائن منقطع کرنے اور ان کے بینک اکاؤنٹس منجمند کرنے کی ہدایات جاری کردی تھی۔24 نومبر کو اسلام آباد عدالت مذہبی جماعتوں کا جاری دھرنا ختم کرنے کے عدالتی احکامات پر عمل در آمد نہ کرنے پر وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال کو توہین عدالت کا شو کاز نوٹس جاری کردیا تھا۔بعد ازاں وفاقی وزیرقانون کی معطلی کا مطالبہ کرنے والی مذہبی جماعت کے دھرنے میں شامل افراد کو گزشتہ رات 12 بجے تک فیض آباد انٹرچینج خالی کرنے کی ہدایت کی گئی تھی جسے بعد میں بڑھا کر صبح سات بجے تک کردیا گیا تھا۔اسلام آباد اور راولپنڈی میں 50 لاکھ لوگ مقیم ہیں جن میں سے تقریباً 5 لاکھ کے قریب افراد روزانہ جڑواں شہروں کے 16 داخلی اور خارجی راستوں کو استعمال کرتے ہیں۔مذہبی جماعت کی جانب سے دیے جانے والے حالیہ دھرنے میں اب تک ایک بچے کی ہسپتال نہ پہنچے کے باعث ہلاکت ہوچکی ہے، جاں بحق بچے کے والدین نے مظاہرین کے خلاف مقدمہ درج کروایا تاہم ابھی تک ذمہ داروں کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔مظاہرین کی جانب سے پتھراؤ اور تشدد کے نتیجے میں ایک ایف سی اہلکار زخمی ہوگیا تھا جس کا مقدمہ دھرنے میں موجود قائدین کے خلاف درج کیا گیا جس کے بعد ان پر درج مقدمات کی تعداد 17 ہوگئی ہے۔اسلام آباد پولیس نے دھرنے میں شرکا کے گرد گھیرا تنگ کرتے ہوئے فیض آباد انٹرچینج پر پولیس کے ساتھ جھڑپ کرنے والے 8 افراد کو گرفتار کرلیا تھا۔
مظاہرین اور حکومت کے ناکام مذاکرات
واضح رہے کہ وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے علماء اور مشائخ کی موجود گی میں مظاہرہ کرنے والی تنظیموں کے قائدین سے مذاکرات کی کوششیں کی اور اس کے لیے مذاکرات کے 5 دور منعقد کیے گئے اور تمام ہی مرتبہ مذاکرات بے نتیجہ ختم ہوئے۔رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین اور مذہبی اسکالر مفتی منیب الرحمٰن نے حکومت اور اسلام آباد میں دھرنا دینے والی مذہبی تنظیموں پر زور دیا ہے کہ وہ معاملے کا پُر امن حل تلاش کریں، جس کی وجہ سے دارالحکومت کے معاملات 2 ہفتوں سے انتہائی خراب صورت حال اختیار کرچکے ہیں۔واضح رہے کہ الیکشن ایکٹ 2017 کی وجہ سے جنرل الیکشن آرڈر 2002 میں احمدی عقائد کے حوالے سے شامل کی جانے والی شقیں ’سیون بی‘ اور ’سیون سی‘ بھی خارج ہوگئیں تھیں جو الیکشن ایکٹ 2017 کے ترمیمی بل کی منظوری کے بعد واپس اپنی پرانی حیثیت میں بحال ہوگئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں

پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان پہلا ٹیسٹ ڈرا ہوگیا

 کراچی: پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان دو میچوں پر مشتمل سیریز کا پہلا ٹیسٹ میچ …