سانحہ ماڈل ٹائون کی جوڈیشل انکوائری رپورٹ عدالت میں پیش نہ کرنے کے حکومتی عذر مسترد، برہمی کا اظہار

لاہور (M92) لاہور ہائیکورٹ نے سانحہ ماڈل ٹائون کی جوڈیشل انکوائری رپورٹ عدالت میں پیش نہ کرنے کے حکومتی عذر کو مسترد کردیا عدالت نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے قراردیا کہ حکومتی وکیل خواجہ حارث کی مصروفیات کے باعث رپورٹ پیش نہ کرنا کوئی جواز نہیں عدالت نے خواجہ حارث کو نہیں ہوم سیکرٹری کو جوڈیشل انکوائری کی رپورٹ عدالت کے روبرو پیش کرنے کا حکم دیاتھا ہوم سیکرٹری انکوائری رپورٹ ہر صورت عدالت میں پیش کریں عدالتی حکم پر اسپیشل ہوم سیکرٹری پنجاب ڈاکٹر شعیب نے سانحہ ماڈل ٹائون کی جوڈیشل انکوائری رپورٹ عدالت میں پیش کر دی تفصیلات کے مطابق جسٹس عابد عزیز شیخ کی سربراہی میں تین رکنی فل بنچ نے سانحہ ماڈل ٹائون کی جوڈیشل انکوائری رپورٹ منظر عام پر لانے کے سنگل بنچ فیصلے کے خلاف دائر حکومتی انٹراکورٹ اپیل پر سماعت کی سماعت شروع ہوتے ہی فل بنچ کے سربراہ نے حکومتی وکیل سے استفسار کیا کہ ماڈل ٹائون کی جوڈیشل انکوائری رپورٹ آج عدالت میں پیش کی جانی تھی جس پر حکومتی وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ خواجہ خارث سپریم کورٹ میں مصروف ہیں جس کے باعث رپورٹ پیش نہیں کی جاسکتی جس پر عدالت نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ہوم سکیرٹری کو رپورٹ چیمبر میں پیش کرنے کا حکم دے دیا سماعت کا باقاعدہ آغاز ہوا تو عوامی تحریک کے وکیل خواجہ طارق رحیم ، بیرسٹرعلی ظفر اور ایڈووکیٹ اظہر صدیق نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سانحہ ماڈل ٹائون کی جوڈیشل انکوائری رپورٹ عوامی دستاویز ہیں جسے شائع کرنا عوامی مفاد میں ہے عدالت نے عوامی تحریک کے وکیل سے استفسار کیا کہ پنجاب حکومت کا موقف ہے کہ رپورٹ شائع ہونے سے سانحہ ماڈل ٹائون کا ٹرائل متاثر ہوگا آپ بتائیں کہ رپورٹ شائع ہونےسے ٹرائل متاثر ہوگا؟ جس پر خواجہ طارق رحیم نے عدالت کو بتایا کہ رپورٹ آپ نے دیکھی نہ ہم نے کیسے کہا جا سکتا ہے رپورٹ ٹرائل پر متاثر ہوگی تاہم رپورٹ شائع ہونے سے میڈیا پر تبصرے ٹرائل پر اثر انداز کر سکتے ہیں جسے روکنے کا اختیار عدالت رکھتی ہےسانحہ ماڈل ٹائون کے متاثرین کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ حکومتی وکیل نے اپنے دلائل میں کہا کہ رپورٹ شائع کرنا یاں نا کرنا حکومت کے دائرہ اختیار میں ہے جو افسوس ناک ہے انہوں نے کہا کہ سانحہ ماڈل ٹائون کی جوڈیشل انکوائری حقائق جاننے کے لیے کروائی گئی تھی تاکہ ذمہ داران کا تعین ہوکسے اور دوبارہ ایسے واقعات پیش نہ آئیں انہوں نے اصرار کیا کہ یہ حکومتی دستاویزنہیں عوامی دستاویز ہے جسے شائع کرنا حکومتی ذمہ داری ہے انہوں نے عدالت کو آگاہ کیا کہ حکومتی نمائیدہ نجی ٹی پر رپورٹ شائع نہ کرنے کی وجہ یہ بتاتا ہے کہ جوڈیشل انکوائری کرنے والے جج جسٹس علی باقر نجفی کا تعلق ایک خاص فرقے سے ہے اور اس لیے یہ رپورٹ شائع ہونے سے فرقہ وارانہ انتشار پھیلنے کا خدشہ ہے بیرسٹرعلی ظفر نے قانونی نقطہ اٹھایا کہ لاہور ہائیکورٹ کے ججز کے ماتحت ہونے والی 51 جوڈیشل انکوائری شائع ہوئیں تو ماڈل ٹائون کی جوڈیشل انکوائری بھی پبلک ہونی چاہئیے جس پر عدالت نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے حکومتی وکیل سے شائع ہونے والی جوڈیشل ٹربیونلز کی فہرست طلب کر لی درخواستگزاروں کے بیرسٹر علی ظفر نے معلومات تک رسائی کے قانون آرٹیکل 19 اے کی تشریخ کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ دنیا بھر میں معلومات تک رسائی کو بنیادی حقوق تصور کیا جاتا ہے تاہم بدقسمتی سے پاکستان میں قانون موجود ہونے کے باوجود عمل درآمد نہیں کیا جارہا ہے علی ظفر نے مزید کہا کہ جوڈیشل انکوائری کی رپورٹ ختمی فیصلہ نہیں یہ صرف ذمہ داران کا تعین کرے گی کسی کو مجرم ٹھہرانا ٹرائل کورٹ کا کام ہے عدالت نے بیرسٹر علی ظفر کو دلائل جاری رکھنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت 16 نومبر تک ملتوی کر دی

یہ بھی پڑھیں

طالبعلم سے زیادتی کے معاملے کو ٹیسٹ کیس کے طور پر لیں گے: آئی جی پنجاب

لاہور(کرائم رپورٹر)آئی جی پنجاب پولیس انعام غنی کا کہنا ہے کہ مدرسے کے طالبعلم سے …