(میڈیا92نیوز)
سعودی عرب میں خواتین کو گاڑی چلانے کی اجازت تو مل گئی لیکن ابھی بھی کچھ ایسے کام باقی ہیں جو سعودی خاتون نہیں کر سکتی ہیں۔
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے خواتین کے حقوق اور اختیارات پر پہلے سے موجود عائد پابندیوں کو کم کرنے کا آغاز گذشتہ برس سے کیا جس کے تحت گاڑی چلانے کی اجازت، بغیر محرم کے سعودی عرب میں داخلے کی اجازت، تفریح کے لیے گھر کی بجائے کھیل کے میدان میں جانے اور سینیما گھروں میں جانے کی اجازت شامل ہے۔
مگر سعودی عرب میں خواتین اب بھی کئی معاملات میں مردوں کی محتاج ہیں اور یہ معاشرہ ایک ہی دن میں آزاد خیال نہیں بن گیا۔ کئی معاملات میں خواتین کو مردوں سے اجازت درکار ہوتی ہے۔
مندرجہ ذیل وہ پانچ اہم چیزیں ہیں جو سعودی خواتین آج بھی خود نہیں کر سکتیں۔
سعودی عرب میں کفالت کا ایک نظام ہے جس کے تحت ہر خاتون کا کوئی نہ کوئی مرد کفیل ہوتا ہے۔ اس کفیل کی اجازت کے بغیر کوئی سعودی خاتون کسی قسم کا بینک اکاؤنٹ نہیں کھول سکتی۔
اگرچہ ہر سال سعودی عوام اربوں ڈالر کی سیاحت کرتے ہیں اور کئی یورپی ممالک میں جا کر چھٹیاں مناتے ہیں تاہم سعودی خواتین یہ کام اکیلے نہیں کر سکتیں۔ انھیں پاسپورٹ بنوانے کے لیے ہی اپنے کفیل کی اجازت چاہیے چاہے وہ ان کا چھوٹا بھائی ہی کیوں نہ ہو۔
کسی بھی سعودی خاتون کی شادی اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک اس کا کفیل اجازی نہ دے۔ والدین کی مرضی کے خلاف شادی کرنے کا تو کوئی امکان ہی نہیں بچتا اور ایسے میں کسی بھی مرد کے لیے یہ بہت آسان ہے کہ اپنی کفالت میں موجود لڑکیوں کی جہاں مرضی ہو شادی کرے۔
اور اگر آپ کی شادی ناکام ہو جائے تو طلاق حاصل کرنے کے لیے بھی آپ کو اپنے شوہر کی اجازت چاہیے۔ اس نظام میں شاید اس معاملے کو نظر انداز کیا گیا ہے کہ اگر آپ کا اختلاف ہی اپنے شوہر سے ہے تو وہ آپ کو اپنی کفالت سے خارج کرنے سے جب تک چاہے انکار کر کے آپ کی زندگی مشکل بنا سکتا ہے۔
مملکتِ سعودیہ میں کسی بھی ریستوران یا کافی ہاؤس میں مردوں اور فیملیوں کو علحیدہ بیٹھنا پڑتا ہے۔ اگر کوئی لڑکا یا لڑکی مل کر بیٹھ کر چائے پیتے پائے جائیں تو انھیں گرفتار کیا جا سکتا ہے۔
عوامی مقامات پر سعودی خواتین کے لیے لباس کے سخت قوائد و ضوابط موجود ہیں۔ آپ پر اپنا چہرہ ڈھکنا لازم تو نہیں مگر آپ کو سر سے لے کر پاؤں تک خود کو چھپانا ہوتا ہے۔ اسی لیے آپ کو سعودی عرب میں عام طور پر خواتین جب شاپنگ مالز یا عوامی مقامات پر نظر آئیں گی تو انھوں نے کالے رنگ کی عبایہ پہن رکھی ہوگی۔ ایک ایسے ملک میں جہاں درجہ حرارت عام طور پر 45 ڈگری سینٹی گریڈ تک جاتا ہے، ایسے موسم میں خواتین کے لیے کپڑوں کی متعدد طہہ پہننا کچھ آسان نہیں ہوتا۔