کیا ہم ٹیکس چور ہیں ؟ (محمد بلال غوری)

(میڈیا92نیوز آن لائن)
(بشکریہ جنگ لاہور)

فائلر ہونے کے باوجود ہر ماہ 15ہزارروپے انکم ٹیکس ادا کرتا ہوں، باقی ماندہ تنخواہ اپنے ہی بینک اکائونٹ سے ڈیوٹی ادا کئے بغیر یکشمت نہیں نکلوائی جا سکتی۔ اب جب اس جائز اور ٹیکس شدہ آمدن سے گاڑی میں پیٹرول ڈلوانا ہو یا بجلی، گیس اورپانی کا بل ادا کرنا ہو تو ایک بار پھر متعدد اقسام کے ظالمانہ ٹیکس کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بعض صورتوں میںٹیکس اور ڈیوٹی 45فیصد تک جا پہنچتی ہے۔ جب یہ گاڑی لیکر سڑک پر آتا ہوں تو ٹول ٹیکس اداکرنا پڑتا ہے۔ گاڑی خراب ہو جائے تو اسپیئر پارٹس پر ٹیکس اور یہاں تک کہ ٹائر کو پنکچر لگوانے پر بھی ٹیکس ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ موبائل فون لینا ہو تو اس پر ٹیکس ہے، کارڈ خریدیں تو 100میں سے 75(اب88) روپے وصول ہوتے ہیں، باقی 25روپے پہلے زرداری ٹیکس کہلاتے تھے، پھر نوازشریف کی جیب میں جایا کرتے تھے مگر اب نیک اور صالح حکمرانوں کے دور میں کدھر جاتے ہیں کچھ معلوم نہیں۔ بہر حال موبائل فون میں بیلنس ڈلوانے کے بعدجب کوئی کال یا نیٹ پیکیج حاصل کرنا ہو براہ راست کال کرکے کسی سے بات کرنی ہو تو ایک بار پھر ٹیکس دیناپڑتا ہے۔ چینی، چائے کی پتی، صابن، شیمپو، گھی، مسالا جات سمیت کچن کے لئے کوئی بھی چیز خریدنی ہو تو اس پر الگ سے ٹیکس لاگو ہوتا ہے۔ جس لیپ ٹاپ پر کالم لکھ رہا ہوں، وہ اخبار جس میں آپ کالم پڑھ رہے ہوں، وہ عینک جو آپ نے لگا رکھی ہے، وہ سگریٹ جو آپ کالم پڑھتے ہوئے پی رہے ہیں، ان سب پر سرکار ٹیکس وصول کرتی ہے۔ گھر میںاے سی لگانا تو اب ہر کوئی افورڈ نہیں کرسکتا مگر کیا کریں پنکھے، ایئر کولر اور بلب پر بھی ٹیکس دینا پڑتا ہے۔ اگر آپ فائلر نہیں، شہر سے کوسوں دور مقیم ہیں تو بھی ٹیکس سے جان نہیں چھوٹ سکتی کیونکہ انکم ٹیکس بچا بھی لیں تو پیسے کھائے نہیںجا سکتے، سہولتیں اور آسائشات خریدنے کے لئے دولت خرچ کرنا پڑے گی اور ان اخراجات پر حکومت نے ٹیکس لگا رکھا ہے۔ گویا ایوان وزیر اعظم سے جب ہیلی کاپٹر اُڑ کر بنی گالہ جاتا ہے یانئے پاکستان کا صدر مملکت سرکاری خرچ پر مشاعرہ کراتا ہے اس کا بل ہر غریب و امیر اُٹھاتا ہے۔ سرکاری مرسیڈیز میں اس غریب مزدور کا بھی خون جلتا ہے جس کے گھر کا چولہا مہنگائی سے بجھتا چلا جاتا ہے۔ جب بھی فیصلے کرنے والوں سے کوئی بھول ہوتی ہے تو معاشی تنگدستی کی صورت میں اس کا خراج عام آدمی کو ادا کرنا پڑتا ہے۔ جو بھی مسند اقتدار پر آتا ہے مجھے کڑوی گولیاں کھلا کر چلا جاتا ہے۔ مگر پھر بھی اُٹھتے بیٹھتے مجھے بے ایمان، بدنیت اور چور کہا جاتا ہے تو دل درد سے بھرآتا ہے۔ وزیراعظم لعن طعن کرتے ہوئے ایک سے زائد مرتبہ یہ کہہ چکے ہیں کہ صرف ایک فیصد پاکستانی ٹیکس دیتے ہیں۔

حضور!99فیصد پاکستانیوں کوکرپٹ قرار دینے سے پہلے ٹرائل کا موقع فراہم کیاہوتا تو ہم بھی صفائی میںکوئی ادھورا بیان دیتے۔ پاکستان کے محکمہ شماریات کے مطابق68فیصد پاکستانی جنہیں ’’ٹیکس چور‘‘کہہ کر مطعون کیا جا رہا ہے ان کی عمریں 30سال سے کم ہیں اور وہ اپنے والدین یا سرپرست کے زیر کفالت ہیں۔ ان میں شیر خوار، طالبعلم اور وہ نوجوان بھی شامل ہیں جو مستقبل بنانے کی جدوجہد میں مصروف ہیں اور ان پر انکم ٹیکس لاگو نہیں ہوتا۔ ہاں البتہ والدین سے جو جیب خرچ وصول کرتے ہیں اس میں سے ایک معقول حصہ بالواسطہ ٹیکسوں کی مد میں حکومت کو ادا کرتے ہیں۔ باقی 32فیصد میں سے تقریباً10فیصد بڑھاپے کی عمر کو پہنچ چکے ہیں اور اپنے بچوں کے زیر کفالت ہیں۔ 1998ء میں ہونے والی مردم شماری کے مطابق 2.38فیصد لوگ جسمانی معذوری کا شکار تھے اب نئی مردم شماری کے مطابق ان افراد کا تناسب ایک فیصد بھی ہو تو اب 21فیصد لوگ کٹہرے میں باقی رہ جاتے ہیں۔ خیال تھا کہ پاکستانی معاشرے میں خواتین کا تناسب 56فیصد ہے مگر حالیہ مردم شماری سے معلوم ہوا کہ خواتین کے مقابلے میں مردوں کی تعداد کم نہیں ہے چونکہ ہمارے ہاں ملازمت پیشہ اور کاروبار کرنے والی خودمختار خواتین کو پسند نہیں کیا جاتا اس لئے بیشتر خواتین امورِ خانہ داری تک محدود ہو جاتی ہیں۔ اگر خواتین کے ہاں ورکنگ ویمن کی شرح 20فیصد بھی ہو تو مزید 8فیصد آبادی ’’ٹیکس چوری‘‘کے الزام سے بری الذمہ ہوتی ہے۔ یوں کم و بیش 13فیصد لوگ شک کے دائرے میں رہ جاتے ہیں۔ حکومت بتاتی ہے کہ ملک میں بے روزگاری کی شرح 5.9فیصد ہے مگرحقیقی اعداد وشمار اس کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں۔ محتاط تخمینے کے مطابق فرض کرلیتے ہیں کہ 10فیصد لوگ کما رہے ہیں اور انہیں ٹیکس ریٹرن جمع کروانا چاہئے مگر عملاً صرف ایک فیصد ٹیکس ریٹرن فائل کرتے ہیں۔ یہ 9فیصد بھی ٹیکس تو دے رہے ہیں مگر اپنی آمدن اور اخراجات کا گوشوارہ ایف بی آر کو جمع نہیں کرواپاتے کیونکہ مجھ جیسا شخص کسی وکیل یا اکائونٹنٹ کی مدد کے بغیر یہ کام نہیں کر سکتا تو واجبی سی تعلیم رکھنے والوں سے یہ توقع کیسے کی جا سکتی ہے؟اب اگر وہ حساب کتاب کے لئے کسی کی خدمات حاصل کریں تو بچوں کو کہاں سے کھلائیں؟

ہم صبح شام یہی رونا روتے ہیں کہ ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو کم ہے، ہر کوئی ٹیکس چورہے تو ملک کیسے ترقی کرے ؟یہ مفروضہ سراسر غلط اور بے بنیاد ہے۔ ہمارے ہاں جی ڈی پی کے اعتبار سے ٹیکس کی شرح 2013ء میں 9فیصد تھی جو 2018ء میں 11فیصد ہوئی اور الحمدللہ اب پھر سے 9.9فیصد پہ آگئی ہے۔ ہمارے ہمسایہ ملک بنگلہ دیش میںٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو 8.7فیصد جبکہ بھارت میں 11.18فیصد ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ٹیکس وصول کی شرح کے اعتبار سے ہم ابھی بنگلہ دیش سے کچھ آگے اور بھارت سے تھوڑا پیچھے ہیں۔ حتیٰ کہ ترقی پذیر ممالک جہاں ٹیکس دینے کا رجحان موجود ہے وہاں بھی جی ڈی پی سے موازنہ کیا جائے تو محاصلات کی شرح بہت کم ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق سوئٹرزلینڈ میں یہ شرح 10.5، جاپان میں 11.6، جرمنی میں 11.4اور امریکہ میں 11.9فیصد ہے۔ ملائشیا جسے ہم رول ماڈل سمجھتے ہیں وہاں یہ شرح 13.1فیصد ہے۔ مگر ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو کم ہونے کے باوجود یہ ممالک ترقی کر رہے ہیں۔ آپ بنگلہ دیش کی مثال لے لیں۔ وہاں معاشی شرح نمو حکومتی دعوئوں کے مطابق 8.13ہوچکی ہے لیکن ورلڈ بینک کے اعداد وشمار پر بھی انحصار کریں تو 7.3فیصد شرح نمو پاکستان کی 3.3فیصد شرح نمو کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ بنگالی کرنسی جس کا مذاق اُڑاتے ہوئے ہم کہا کرتے تھے کہ فلاں شخص تو ٹکے کا نہیں ہے یا فلاں شے تو ٹکے ٹوکری ہوگئی ہے، پاکستانی کرنسی کے مقابلے میں ایک بنگلہ دیشی ٹکہ 1.87روپے کا ہے۔

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ آخر ان کے آگے نکلنے اور ہمارے پیچھے رہ جانے کی کیا وجہ ہے؟ وجہ صاف ظاہر ہے، انہوں نے معیشت کا حجم بڑھانے، جی ڈی پی میں اضافہ کرنے کی کوشش کی کیونکہ جب معاشی سرگرمی ہوتی ہے، لوگوں کی آمدن میں اضافہ ہوتا ہے تو محاصلات خودبخود بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر آپ اپنے شہریوں کو ٹیکس چور کہیں گے، ویلنے (گنے سے رس نکالنے والی مشین) میں ڈال کر ان کے جسم سے آخری قطرہ تک نچوڑنے کی کوشش کریں گے تو یہی ہوگا جو ہو رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

عمران خان نے عمر ایوب کو وزارت عظمیٰ کا امیدوار نامزد کردیا

راولپنڈی: بانی پی ٹی آئی عمران خان نے عمر ایوب کو وزیراعظم کے عہدے کا امیدوار …