صورت گر چند خوابوں کے (الطاف حسن قریشی)

لاہور(میڈیا92نیوز)
اِس عنوان سے پروفیسر ڈاکٹر طاہر مسعود کی تازہ تصنیف منصہ شہود پر آئی ہے جس میں مختلف شعبہ ہائےزندگی کے 42 مشاہیر کے شخصی خاکے اور انٹرویو شامل ہیں۔ وہ مختلف یونیورسٹیوں میں صحافت کے استاد رہے ہیں اور خاکہ نگاری اور افسانہ نویسی میں ایک مقام رکھتے ہیں۔ اُن کا شگفتہ اندازِ نگارش دلوں میں اُتر جاتا ہے۔ میرے ہاتھ میں ’صورت گر چند خوابوں کے‘ کی دوسری جلد ہے اور جب میں نے اسے پڑھنا شروع کیا، تو پڑھتا ہی چلا گیا۔ اس میں شخصیتوں کا تنوع ایک گلدستے کی طرح ہے جس میں رنگارنگ پھول یکجا کر دیے گئے ہیں۔ دینی، فکری شخصیتوں اور اہلِ سیاست میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی، مولانا سعید احمد اکبر آبادی، مولانا شاہ احمد نورانی، ڈاکٹر اسرار احمد، حاجی حنیف طیب اور احمد جاوید نمایاں ہیں جبکہ بےلوث سماجی کارکنوں میں عبدالستار ایدھی اور انصار برنی اور ماہرینِ تعلیم میں ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی، ڈاکٹر منظور احمد، ڈاکٹر عطاء الرحمٰن، پروفیسر متین الرحمٰن مرتضیٰ اور ڈاکٹر نثار احمد جلوہ گر ہیں۔ صحافت اور ذرائعِ ابلاغ سے مصنف نے میر خلیل الرحمٰن، محمد صلاح الدین، فرہاد زیدی، ضمیر نیازی، محمود احمد مدنی، ش فرخ، مہتاب چنا اور مجھ خاکسار کا انتخاب کیا ہے۔

ڈاکٹر طاہر مسعود نے شاعروں اور ادیبوں میں سے زاہدہ حنا، انور شعور، ڈاکٹر پیرزادہ قاسم، آصف فرخی، محب عارفی اور ڈاکٹر عبدالمغنی سے مکالمہ کیا ہے اور اُن کے جیتے جاگتے خاکے لکھے ہیں اور ڈاکٹر اسلم فرخی سے صوفیانہ رموز حاصل کیے ہیں جبکہ دفاعِ وطن کے شعبے میں ایئر مارشل (ر) محمود اختر سے راز و نیاز کی باتیں ہوئی ہیں۔ فنونِ لطیفہ سے وابستہ شخصیتوں میں انور مقصود، راحت کاظمی، حمید کاشمیری کے علاوہ طلعت حسین اور کمال احمد رضوی شامل ہیں۔ کھیل کے میدان سے شہناز گُل کا انتخاب کیا ہے جبکہ اشتہاری ایجنسیوں سے ایس ایچ ہاشمی اور سی اے رؤف شامل ہیں۔ اس قدر عظیم اور مشہور شخصیتوں سے ملاقات کا اہتمام ڈاکٹر طاہر مسعود کا بہت بڑا کارنامہ ہے جس کی جتنی بھی داد دی جائے، کم ہے۔ ان ملاقاتوں کے ذریعے قارئین پر تاریخ کے راز بھی منکشف ہوتے ہیں، علم و حکمت اور فلسفے کے رموز بھی کھلتے ہیں اور شعر و ادب کی لطافتوں کی مہکار بھی ہے۔ زندگی کے ناقابلِ فراموش تجربات اور مشاہدات ذہنی اُفق میں وسعت پیدا کرتے ہیں۔ اِس اعتبار سے یہ کتاب ایک گنجینہ ہائے گراں مایہ ہے جس کا مطالعہ نوجوان نسل کو ضرور کرنا چاہیے کہ اس میں صلاحیتوں کو صحیح طور پر بروئے کار لانے کے نہایت کامیاب تجربے محفوظ کر لیے گئے ہیں۔

اس بیش بہا تصنیف میں عجیب عجیب واقعات بھی طشت ازبام ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر ڈاکٹر طاہر مسعود نے اپنی زندگی کا یہ تجربہ قلمبند کیا کہ وہ اپنی جوانی کے ابتدائی زمانے میں سید ابوالاعلیٰ مودودی کے خلاف محفلوں میں گفتگو کرتے اور انہیں تضحیک کا نشانہ بناتے رہے۔ ایک روز اُن کے والد صاحب نے اُنہیں ٹوکا کہ تم جس شخص کے بارے میں کچھ جانتے نہیں، اس کے متعلق غیر ذمہ دارانہ بات کرنا کسی طور مناسب نہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ والد صاحب کے ٹوکنے پر میں نے مولانا کی کتابوں کی طرف رجوع کیا اور رسالہ ’دینیات‘ نے میرے اندر ایک عظیم انقلاب برپا کر دیا۔ میں پہلی بار اس حقیقت سے واقف ہوا کہ اسلام ایک مکمل نظامِ حیات ہے جس میں پوری انسانیت کی نجات مضمر ہے۔ مولانا کا لٹریچر جن جن ملکوں میں پھیلتا گیا، وہاں کے نوجوان الحاد سے نکل کر اسلام کو ایک تمدنی طاقت بنانے کے لیے متحرک ہو گئے۔

ڈاکٹر طاہر مسعود نے مولانا کا انٹرویو اُن کی وفات سے ایک سال پہلے کیا جس میں اُنہوں نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا ’’ہم نے کبھی یہ نہیں کہا کہ اسلامی انقلاب صرف جمہوری راستوں ہی سے آ سکتا ہے، بلکہ جو بات ہم یقین سے سمجھتے ہیں، وہ یہ ہے کہ کسی مصنوعی ذریعے سے اگر ایسا انقلاب برپا کر دیا جائے جس کے لیے معاشرہ ذہنی اور اخلاقی حیثیت سے تیار نہ ہو، وہ انقلاب کبھی پائیدار نہیں ہو سکتا اور معاشرے کو تیار کرنا ایک محنت طلب کام ہے‘‘۔ ایک اور سوال کے جواب میں مولانا کا یہ موقف تھا ’’اجتماعی معاملات کو چلانے کے لیے صرف اچھے مقاصد کافی نہیں ہوتے بلکہ تجربہ کاری کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ جو قومیں ترقی کر رہی ہیں، ان کے معاملات کی باگیں سن رسیدہ اور تجربہ کار لوگوں کے ہاتھ میں ہیں اور جہاں نو عمر لوگ کسی سازش یا بغاوت کے ذریعے سے اپنے اپنے ملک کے معاملات پر قابض ہو گئے ہیں، وہاں ان کی ناتجربہ کاری اپنے برے اثرات دکھا رہی ہے‘‘۔

جناب ڈاکٹر طاہر مسعود نے عظیم اسلامی مفکر اورمنفرد نقاد جناب احمد جاوید کے روح پرور تصورات انتہائی پُر تاثیر انداز میں پیش کیے ہیں۔ اِس کے علاوہ جناب محمد صلاح الدین کی عظمتِ کردار کو زبردست خراجِ عقیدت پیش کیا ہے۔ سید محمود مدنی جو چالیس سال روزنامہ جنگ اور جسارت کے ایڈیٹر رہے، اُنہوں نے اپنی سیاسی وابستگی کو اپنے صحافتی فرائض پر حاوی ہونے دیا نہ حکمرانوں کے ساتھ قریبی تعلقات کے باوجود کوئی ذاتی فائدہ اُٹھایا۔ اِس حقیقت پر سے بھی پردہ اُٹھا کہ متین احمد مرتضیٰ اداریہ لکھتے تھے جن سے ایوانِ اقتدار میں زلزلہ آ جاتا تھا۔ فاضل مصنف نے جناب ضمیر نیازی کا ناقابلِ فراموش کارنامہ بھی تاریخ میں محفوظ کر لیا جنہوں نے ’پابہ زنجیر پریس‘ تصنیف کر کے حیرت انگیز جرأت کا مظاہرہ کیا تھا۔ اِسی طرح مہتاب چنا جو اب مہتاب راشدی ہیں، کی فکری دیانت اور زاہدہ حنا کی تخلیقی اور کردار سازی کی غیرمعمولی صلاحیت کو سلام پیش کیا ہے۔

اِس گلزارِ کہکشاں میں مجھے جناب میر خلیل الرحمٰن کا انٹرویو اور اُن کے ذاتی اوصاف نے بےحد متاثر کیا۔ مصنف نے اُنہیں ’میرِ صحافت‘ کا بہت موزوں لقب دیا ہے۔ میر صاحب اقلیم صحافت کے تاجدار تھے جن کی سب سے بڑی عظمت یہ تھی کہ وہ اپنے اس ماضی کو بیان کرنے میں کوئی جھجھک محسوس نہیں کرتے تھے۔ اُنہوں نے اپنی دنیا خود تعمیر کی تھی اور وہ خوش مزاجی اور وضع داری کی عمدہ مثال تھے۔ میر صاحب نے شعبۂ صحافت میں جو ٹیکنالوجی متعارف کرائی، اس نے زبردست انقلاب برپا کر دیا ہے۔ وہ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ قاری کو زیادہ سے زیادہ معلومات فراہم کی جائیں۔
بشکریہ جنگ نیوز

یہ بھی پڑھیں

شہری اراضی کا ریکارڈ کمپوٹرائیشن، بورڈ آف ریونیو کے شعبہ پلس کا قابل فخر کارنامہ، جائیدادوں پر قبضے، جھوٹی درخواستیں، تنازعہ جات کا خاتمہ ہوجائے گا۔

شہری اراضی کا ریکارڈ کمپوٹرائیشن، بورڈ آف ریونیو کے شعبہ پلس کا قابل فخر کارنامہ، …