دسمبر کی رونقیں(افضال ریحان)

میڈیا92نیوز
غالب نے کیا خوب کہا تھا کہ عاشقیِ صبر طلب اور تمنا بے تاب؍دل کا کیا رنگ کروں خونِ جگر ہونے تک۔ دماغ میں موضوعات کا ایک سے بڑھ کر ایک طوفان ہے لیکن اخباری گنجائش ہے کہ دن بدن سکڑتی جا رہی ہے۔ میڈیا کے اس دورِ ابتلا پر لکھنے کو جی چاہ رہا ہے لیکن دسمبر کی رومانوی فضا آج قومی اسمبلی میں حکومت اپوزیشن مفاہمت کی طرح صرف محبت بھری باتوں کا تقاضا کر رہی ہے۔ ہمارے دوست ابرار نے جب’’ بھیگا بھیگا سا یہ دسمبر ہے‘‘ گایا تھا تو شادیوں کی سمجھ آئی تھی جو اس مہینے میں بہت زیادہ ہوتی ہیں لیکن جس فراوانی سے دیگر تقریبات بھی ہو رہی ہیں انہیں دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ ٹھنڈ والا مہینہ کتنی رونقیں ساتھ لے کر آتا ہے۔ درویش کی بہت سی محبوب شخصیات اسی ماہِ مبارک میں دنیا میں تشریف لائیں جن میں سے ایک ہمارے دل و دماغ کی مالک محترمہ ڈاکٹر خلعت النساء صاحبہ ہیں، جن کی ولادت اس ماہِ مبارک کی چوبیس تاریخ کو ہوئی۔ یہی وہ برکتوں والا دن ہے جب ہمارے کانوں میں عشق و وفا کے گیتوں سے رس گھولنے والے محبت کے دیوتا محمد رفیع نے کوٹلی سلطان پور میں جنم لیا۔ اور پھر جنوبی ایشیا کے باسی اس شہنشاہ جذبات کی فنی عظمت کو کیسے فراموش کر سکتے ہیں جس نے دلیپ کمار کے نام سے طویل عرصے تک آرٹ اور ہنر ہی کی نہیں اہل ذوق کی بھی امامت کی۔11دسمبر 1922کو قصہ خوانی بازار میں نمودار ہونے والی روشنی آج ممبئی میں چراغِ سحری ہے۔

ہم پاکستانیوں کے لیے بانی ٔپاکستان کی اہمیت کیا کسی دلیل کی محتاج ہے جنہوں نے فرمایا تھا کہ اس مملکت کی تشکیل کے لیے میں نے اور میرے ٹائپ رائٹر نے انہونی کو ہونی کر دکھایا۔متحدہ ہندوستان کی آخر ی دہائیوں میں جن کی سیاست سب پر حاوی دکھائی دی۔ ان کی جیب میں موجود کھوٹے سکوں کی بات ہم نے نہیں کرنی کیونکہ آج ہم نے صرف محبت بھری باتیں لکھنی ہیں۔ اس رواروی میں ہم نے دو قائدین کا ذکر ضرور کرنا ہے جن میں سے ایک وہ جمہوری قائد ہے جس نے جناح کے پاکستان کو خالص جمہوری مملکت بنانے کے لیے اپنی روایتی حکومت کی قربانی دے دی۔وہ چاہتا تو مقتدر قوتوں کے سامنے سر نگوں ہو کر چوتھی مرتبہ بھی تابع فرمان وزارتِ عظمیٰ کا سنگھاسن حاصل کر سکتا تھا لیکن اُس نے عوامی حکمرانی کا نعرہ بلند کرتے ہوئے قوم کو یہ پیغام دیا کہ باطل دوئی پسند ہے حق لاشریک ہے۔ تین مرتبہ اس شعلہ نمخوردہ کو آزما لینے کے بعد بھی اگر وہ اسی ڈگر پر چلتا جاتا تو محض ایک روایتی سیاستدان کہلاتا۔ عوامی حاکمیت کی سوچ دے کر اُس نے جو چنگاری سلگائی ہے وہ ایک روز اپنا رنگ دکھائے یا نہ دکھاپائے تاریخ میں اسے ضرور امر کر گئی ہے۔

جنوبی ایشیا میں امن دوستی اور بھائی چارے کے لیے دہلی سے لاہور پدھارنے والے رہنما اٹل بہاری واجپائی کو امن وسلامتی پر ایمان رکھنے والا کوئی شخص کیسے بھول سکتا ہے۔ پنڈٹ جی یا کانگرسی قیادتوں سے ہٹ کر جس نے اپنی شدت پسندی کی پہچان کو بھی تج دیا اور لاہور میں دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا کہ اقوام و ممالک کی تاریخ میں دوست بدلے جا سکتے ہیں ہمسائے نہیں۔ کیوں نا ہم ہمسائیگی میں دوستی کر لیں۔ ہماری محترمہ بے نظیر بھٹو جو دنیا میں ڈاٹر آف دی ایسٹ کہلائیں انہوں نے جنم تو اگرچہ گرم ترین موسم میں لیا تھا لیکن اس عالمِ رنگ و بو سے ان کی ملکِ عدم روانگی اسی ماہِ دسمبر میں ہوئی۔ ہم اُن کی جمہوری عظمت کو خراجِ تحسین پیس کرتے ہیں کہ وہ جہالت ،شدت اور دہشت سے لڑتی ہوئی ہمارے لیے ایک پیغام چھوڑ گئیں۔ یہ تمام تر پیغامات قابلِ التفات ہیں مگر ایک پیغام امن کے اس شہزادے کا ہے جو عدم تشدد کے تمام پیا مبروں پر بھاری ہے۔ جسے ہم مسیح اور روح اللہ قرار دیتے ہیں اور جس کے پیرو کار آج دنیا میں سب سے زیادہ ہیں مگر اپنی زندگی اُس نے مسکینی و عاجزی میں گزار دی۔ کیا دنیا اس سے بڑھ کر عاجزی کی کوئی مثال دے سکتی ہے کہ جو تمہارے دائیں گال پر مارتا ہے تو اُسے بایاں بھی پیش کر دے۔ہمیں تسلیم ہے کہ یہ مشکل ہی نہیں بڑی حد تک نا ممکن ہے مگر پس پردہ موجود احساسات کا ادراک تو کیجیے اس میں انسانیت کے لیے کس قدر درد مندی ہے۔

بات شروع ہوئی تھی ماہِ دسمبر کی تقریبات سے،پوری دنیا میں کرسمس (ولادتِ مسیح ؑ) کی تقریبات سب سے اہم گردانی جاتی ہیں۔ ویسے ہما رے خطے میں محبت بھرے جوڑوں کا سب سے زیادہ ملاپ بھی شاید اسی مبارک مہینے میں ہوتا ہے ہمیں ہر روز یہ رونقیں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ ان کے علاوہ جن تقریبات میں جانے کے مواقع میسر آئے ،ان میں ایک تقریب پنجاب یونیورسٹی میں منعقد ہوئی جہاں ہمیں یہ بتایا گیا کہ ہماری اس مادرِ علمی کی ایک سو چھتیس سالوں پر محیط تاریخ کیا ہے اور اس میں شدت پسندی کا داخلہ کس طرح ممکن ہوا تھا، اب ا سے فارغ کرتے ہوئے امن و سلامتی کی لبرل اپروچ کا داخلہ کیسے کروایا جا سکتا ہے۔ جب یہاں استاد کے احترام اور مقام کے بارے میں بتایا جا رہا تھا تو ذہنی کینوس پر اُن اساتذہ کرام کی تصاویر نمودار ہور ہی تھیں جو شدت پسندی کے خوف سے واش روموں میں چھپ جایا کرتے تھے۔ پھر اُس استاد کی تصویر بھی ابھری جو اس قدیمی درس گاہ کے وائس چانسلر رہے مگر انہیں ہتھکڑیاں لگا کر نیب نے استاد کی جو ’’عزت افزائی‘‘ کی شاگرد اس منظر نامے کو کیسے بھلا سکیں گے؟

مغربی عالمی ادارے پوری دنیا میں غربت، جہالت اور بیماریوں کے خلاف جو جد وجہد کر رہے ہیں ہماری کوتاہ بین نگاہیں ان کی جانب کم ہی اٹھتی ہیں حالانکہ ان کی برکت سے کئی مہلک بیماریوں کا دنیا سے خاتمہ ہو چکا ہے۔ دنیا میں جدید سائنسی ترقی کی برکات اور انسانیت پر احسانات کا جائزہ لیا جائے تو سائنٹفک ترقی کے آگے سر تسلیم خم کرنا پڑتا ہے۔ پولیو جیسی مہلک بیماری اب صرف مملکتِ خداداد پاکستان،افغانستان یا ایک دو افریقی ممالک میں رہ گئی ہے لیکن جن لوگوں نے انسانیت کی اتنی بڑی خدمت کی ہے اُن کے خلاف پروپیگنڈے کا شاید ہی کوئی موقع ہو جسے ہم ضائع جانے دیتے ہوں۔ یونیسیف کے تعاون یا مالی معاونت سے ہم نے ایک سیمینار منعقد کیا ’’ہمارے بچے ہماری ذمہ داری‘‘بچوں کی ڈیجیٹل رجسٹریشن کے حوالے سے ہم اپنے لوگوں کی خدمت میں یہ گزارش کرنا چاہتے ہیں کہ اس حوالے سے تساہل کو ختم کر دیا جائے۔پیدائش ،اموات اور نکاح و طلاق کے معاملات بلاشبہ آپ کی نظروں میں معمولی ہوں گے مگر مت بھولیے کہ ہماری بہت سی قومی پالیسیاں اور محکمانہ ترجیحات اسی حاصل کردہ ڈیٹا کی بنیاد پر بنتی ہیں۔

’’جنگ‘‘ اور لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کے تعاون سے لاہور کی یونین کونسلز میں صفائی کے حوالے سے ایک سیمینار میں شرکت کی دعوت دی گئی جس میں ’’کلین اور گرین پاکستان‘‘ پر اظہارِ خیال کا موقع ملا تو کہا کہ ایک ریٹائرڈ مولوی کی حیثیت سے آج کہتا ہوں کہ نماز کے بغیر صفائی ہو سکتی ہے مگر صفائی کے بغیر نماز نہیں ہو سکتی۔اس حکومت سے ہمیں ایک سو ایک شکایات ہو سکتی ہیں مگر کلین گرین پاکستان ہو پنجاب ہو یا لاہور ،اس سے کسی ایک فرد کو بھی کوئی اختلاف نہیں ہے۔ ہم صفائی کو نصف ایمان قرار دینے والے جب مغربی ممالک میں جاتے ہیں تو آخر کیوں یہ پکار اٹھتے ہیں کہ فردوس جو تیرا ہے کسی نے نہیں دیکھا فرنگ کاہر قریہ ہے فردوس کی مانند۔انہی دنوں محترم شامی صاحب کی رہائش گاہ پر جناب سہیل وڑائچ کے ساتھ ایک تقریب میں شرکت کی جو لندن میں ہونسلو کی مئیر محترمہ سمیعہ چوہدری کے اعزاز میں منعقد کی گئی تھی ہمیں یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ انگلینڈ میں ایک پاکستانی نژاد مسلمان خاتون کو یہ اعزاز بخشا گیا ہے اس سے قبل ہم لندن کے مئیر جناب صادق خان کو بھی ملاحظہ کر چکے ہیں مزید ایسے کئی پاکستانی مسلمانوں سے آگہی رکھتے ہیں جو ان غیر مسلم ممالک میں عزت،شہرت اور دولت کمانے کے ساتھ ساتھ قیادت کے مناصب پر بھی فائز ہیں۔ (جاری ہے)
(بشکریہ جنگ لاہور)

یہ بھی پڑھیں

دوہرا معیار (عامر محمود بٹ)

یہ تو واضح ہے کہ پنجاب لینڈ ریکارڈ اتھارٹی اس وقت پنجاب کے سب سے …