سلطانی گواہ نہ ہوتے تو کیا ہوتا؟(محمد بلال غوری)

(میڈیا92نیوز)

دنیا بھر میں بالعموم اور پاکستان میں بالخصوص سلطانی گواہ نہ ہوتے تو کیا ہوتا؟احتساب کے خواب سراب ہو جاتے اورناپسندیدہ سیاستدانوں کو نشانِ عبرت بنانادشوار ہو جاتا ۔ہمیں برطانوی قانون دان فرنے چارلس (Fearne Charles)کا ممنون و شکر گزار ہونا چاہئے جس نے 18ویں صدی میں کرائون وِٹنیس کی قانونی اصطلاح متعارف کروائی ۔شاید اس زمانے میں وہاں بھی احتساب کا ایسا ہی کڑا نظام رائج تھا جیسا آج ہمارے ہاں دکھائی دے رہا ہے۔عدالتوں میں استغاثہ کو شدید مشکلات پیش آتیں، شہادتوں اور شواہد کی عدم دستیابی کے باعث ملزم چھوٹ جاتے ہیں۔اس کا حل یہ نکالا گیا ہےکہ کسی شریک ِجرم شخص کو رہائی کا لالچ دیکر کرائون وِٹنیس بنالیا جائے تاکہ مرکزی ملزم کے خلاف اس کی گواہی کو بنیاد بناتے ہوئے سزا دی جا سکے۔اس شرانگیز قانونی اختراع پر تب بھی بہت سوالات اٹھے اور اب بھی ایسی گواہی کو معتبر خیال نہیں کیا جاتا کیونکہ ذاتی فائدے کی غرض سے ملزم کچھ بھی کہہ سکتا ہے۔قانونی گنجائش تو شریک ِملزم کو سلطانی گواہ بنانے کی حد تک تھی مگر استغاثہ نے یہ راستہ بھی نکال لیا کہ کسی بے گناہ شخص کو زبردستی شریک ملزم بنا کر گرفتار کرلیا جائے اور پھر اسے سلطانی گواہ بننے کے عوض رہائی کی پیشکش کی جائے۔ ماضی میں کئی اہم مقدمات کے متنازع فیصلے اسی بنیاد پر ہوئے ۔مثال کے طور پر بھگت سنگھ جسے پاکستان اور بھارت میں یکساں طور پر جدوجہد آزادی کا ہیرو سمجھا جاتا ہے، اسے سلطانی گواہوں کے ذریعے ہی قتل کے مقدمے میں پھنسا کر پھانسی کی سزا دی گئی۔بھگت سنگھ اور بی کے دَت نے 8اپریل 1929ء کو مرکزی دستور ساز اسمبلی میں بم پھینکے اور موقع پر ہی خود کو سرنڈر کر دیا ۔اس مقدمے میں دونوں کو 14سال قید کی سزا سنائی گئی مگر بھگت سنگھ کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے خوف زدہ حکومت نے اسے ایک اورمقدمے میں پھنسانے کا فیصلہ کرلیا۔ لاہور میں برطانوی پولیس افسر جان پی سینڈرز اور ہیڈ کانسٹیبل چنان سنگھ کو قتل کر دیا گیا تھاجس کی ایف آئی آر نامعلوم افراد کے خلاف درج تھی مگر اسے بھی بھگت سنگھ کے کھاتے میںڈال دیا گیا۔یکم مئی 1930ء کو وائسرائے لارڈ اِرون نے ایک آرڈیننس کے ذریعے ا سپیشل ٹریبونل قائم کیا تاکہ بھگت سنگھ کا ٹرائل کیا جا سکے۔سماعت شروع ہوئی تو جے گوپال،پھندر گوش اور صبح سنگھ کو سلطانی گواہ بنا لیا گیا ۔ٹریبونل نے بھگت سنگھ اور راج گرو کو سزائے موت سنا دی اور 23مارچ 1931ء کو انہیں لاہور میں پھانسی دیدی گئی۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ جس ٹریبونل نے یہ سزا سنائی، اس کی اپنی کوئی قانونی حیثیت نہ تھی کیونکہ مقدمے کا فیصلہ ہونے کے تین ہفتے بعد ہی وہ آرڈیننس اسمبلی سے منظور نہ ہونے کے باعث کالعدم ہو گیا جس کی رو سے ٹریبونل قائم کیا گیا تھا۔

قیام پاکستان کے بعد اس نوعیت کا سب سے بڑا مقدمہ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی ہے ۔احمد رضا قصوری کے والد نواب محمد احمد خان قصوری کو قتل کر دیا گیا اور اس کا الزام ایف ایس ایف (بھٹو کی بنائی ہوئی فیڈرل سیکورٹی فورس)پر لگایاگیا۔بنیادی طور پر اس مقدمے کے مرکزی ملزم ایف ایس ایف کے سربراہ مسعود محمود تھے جنہیں ضیاء الحق کے دور میں سلطانی گواہ بنا کر معاف کر دیا گیا اور پھر پھانسی کا پھندہ ذوالفقار علی بھٹو کے گلے میں فِٹ کر دیا گیا۔مسعود محمود نے قتل کا اعتراف کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ انہیںیہ حکم وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی طرف سے دیا گیا تھا۔مقدمہ ٹرائل کورٹ کے بعد ہائیکورٹ سے ہوتا ہوا سپریم کورٹ میںآیا تو سات رکنی بنچ نے تین کے مقابلے میں چار کے اکثریتی فیصلے سے ان کی سزا برقرار رکھی۔جسٹس غلام صفدر شاہ نے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ مسعود محمود کے بعض بیانات صرف سنی سنائی باتوں کے ذیل میںآتے ہیں اس لئے بطور شہادت قابلِ قبول نہیں ہو سکتے ۔علاوہ ازیں وعدہ معاف گواہ بذاتِ خود کوئی ایسا قابل اعتماد گواہ نہ تھا، جسٹس محمد حلیم نے جسٹس غلام صفدر شاہ کی بات سے اتفاق کیا جبکہ جسٹس دُراب پٹیل نے بھی اس رائے کا اظہار کیا کہ سلطانی گواہ مسعود محمود کوئی قابل اعتبار گواہ نہ تھا اور اس قسم کے مقدمے میں اسکی شہادت سے زیادہ کوئی معتبر شہادت درکار تھی۔

ہمارے ہاںقانون شہادت میں ترمیم کے بعد سلطانی گواہوں کو وعدہ معاف گواہ کہا جاتا ہے۔ جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں اسحاق ڈار کو وعدہ معاف گواہ بنا کر نوازشریف کو سزا دی گئی اور شریک ملزموں کے لئے وعدہ معاف گواہ بن کر رہائی پانے کی فراخدلانہ پیشکش کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔پہلے اطلاعات آئیں کہ فواد حسن فواد کو شہبازشریف کے خلاف وعدہ معاف گواہ بنانے پر آمادہ کرلیا گیا ہے، پھر خبر ملی کہ صاف پانی کمپنی کے سابق سربراہ وسیم اجمل سابق وزیراعلیٰ کے خلاف وعدہ معاف گواہ بننے کو تیار ہو گئے ہیں۔خواجہ سعد رفیق کو قابو میں کرنےکے لئے بھی قیصر امین بٹ کی شکل میںوعدہ معاف گواہ ڈھونڈ لیا گیا ہے اور ضمانت خارج ہونے کے بعد خواجہ برادران کی گرفتاری یہ بتانے کے لئے کافی ہے کہ احتساب کے خواب جنہیں ماضی میں سراب سمجھا جاتا تھا اب حقیقت کاروپ دھار رہے ہیں ۔

مسلم لیگ (ن) ہی نہیں پیپلز پارٹی کی قیادت کا بھی اسی نہج پر سخت احتساب ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ راجہ پرویز اشرف کے خلاف رینٹل پاور کیس، جو کئی سال سے آگے نہیں بڑھ پا رہا تھا، کے ایک مرکزی ملزم کو راجہ پرویز اشرف کے خلاف وعدہ معاف گواہ بنا لیا گیا ہے ۔رانا محمد امجد جو سینٹرل پاور پرچیز اتھارٹی کے سابق ایم ڈی ہیں، انہیں معاف کر دیا گیا ہے اور احتساب عدالت نے بطور وعدہ معاف گواہ پیش کرنے کی اجازت دیدی ہے۔سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف العزیزیہ ریفرنس کا فیصلہ بھی آنے کو ہے اور ممکن ہے انہیں اسی مہینے ایک بار پھر اڈیالہ جیل بھجوا دیا جائے۔سابق صدر آصف علی زرداری اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بھی پیشیاں بھگت رہے ہیں،بالخصوص زرداری صاحب کو کسی بھی وقت گرفتار کیا جا سکتا ہے ۔یادش بخیر، آصف زرداری نے بطور صدرِ مملکت اپریل 2011کو ایک ریفرنس بھیجا تھا کہ کیا بھٹو کی پھانسی عدلیہ کا درست فیصلہ تھا؟سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے اس ریفرنس کی سماعت کے لئے 11رُکنی بنچ تشکیل دیا مگر یہ معاملہ زیر التوا ہے کیونکہ گڑے مُردے اکھاڑنے سے کہیں زیادہ اہم بات یہ ہے کہ احتساب کی اس مہم کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔ گاہے خیال آتا ہے کہ یہ سلطانی گواہ نہ ہوتے تو کیا ہوتا؟
(بشکریہ جنگ لاہور)

یہ بھی پڑھیں

شہری اراضی کا ریکارڈ کمپوٹرائیشن، بورڈ آف ریونیو کے شعبہ پلس کا قابل فخر کارنامہ، جائیدادوں پر قبضے، جھوٹی درخواستیں، تنازعہ جات کا خاتمہ ہوجائے گا۔

شہری اراضی کا ریکارڈ کمپوٹرائیشن، بورڈ آف ریونیو کے شعبہ پلس کا قابل فخر کارنامہ، …