کیا عثمان بزدار کے پاس جادو کی چھڑی ہے؟ (نسیم شاہد)

وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے کہا ہے کہ وہ پنجاب کا 30 سالہ ’’اسٹیٹس کو‘‘ توڑ دیں گے، نجانے انہوں نے کس ’’اسٹیٹس کو‘‘کی بات کی ہے، پنجاب کا ’’اسٹیٹس کو‘‘ تو ستر برس پرانا ہے، جو قیام پاکستان کے فوراً بعد سے قائم ہو گیا تھا۔
مجھے عثمان بزدار کا بیان پڑھ کر1993ء یاد آ گیا، جب پنجاب اسمبلی کی سپیکر شپ حنیف رامے کو ملی،وہ پنجاب کا مقدمہ لکھنے کے حوالے سے مشہور تھے، مگر جب سپیکر بنے تو اُنہیں ایک نئی صورتِ حال کا سامنا ہوا۔
اُن کی سپیکری میں ہونے والا پہلا اجلاس ہی بہت دھواں دھار ثابت ہوا۔

ارکانِ اسمبلی نے اُنہیں کہا کہ آپ پنجاب کا مقدمہ لڑتے رہے ہیں تو اب سپیکر کی حیثیت سے1977ء میں چھینے گئے پنجاب کے حقوق واپس دلائیں۔ان سولہ برسوں میں پنجاب کے نام پر جو بے انصافیاں ہوئی ہیں، اُن کا ازالہ کریں۔حنیف رامے نے ارکانِ اسمبلی کو پنجابی میں بھی اظہارِ خیال کی اجازت دے ڈالی تھی۔

حنیف رامے کا تھیسز یہ تھا کہ پنجاب کو بڑا صوبہ ہونے کی سزا دی جاتی ہے،اُس کے حقوق پامال کئے جاتے ہیں،حالانکہ وہ دوسرے صوبوں سے زیادہ پسماندہ اور مسائل کا شکار ہے۔یہ وہ دور تھا جب کئی سال بعد پنجاب کی حکومت نواز شریف کے ہاتھوں سے نکل کر پیپلزپارٹی اور اُس کے اتحادیوں کے پاس آئی تھی اور اسے یہ معانی پہنائے جا رہے تھے کہ اب پنجاب میں جمود کا ازالہ ہو گا، محرومیوں کا خاتمہ ہو گا اور پنجاب کو اُس کے حقوق مل جائیں گے۔ اُس دور میں پورے پنجاب کے لئے حقوق مانگنے کی لہر چلی ہوئی تھی،آج تو صرف جنوبی پنجاب کے لئے حقوق کی تحریک چل رہی ہے،لیکن سب نے دیکھا کہ حنیف رامے جیسا دانشور، کالم نگار اور محقق بھی سپیکر پنجاب اسمبلی کی حیثیت سے پنجاب کا کتابوں میں لڑنے والا مقدمہ عملاً نہ لڑ سکا۔

پنجاب کو صرف لاہور تک محدود کر دیا گیا اور لاہور کی خوشحالی و ترقی کو بنیاد بنا کر پنجاب پر دوسرے صوبوں کے استحصال کا الزام بھی لگتا رہا۔ جو لوگ یہ جشن منا رہے تھے کہ حنیف رامے کے آنے سے پنجاب کو اُس کے حقوق ملیں گے، وہ اِس بات کو بھول گئے کہ جب حنیف رامے صوبے کے وزیراعلیٰ تھے، اُس وقت بھی ذوالفقار علی بھٹو نے اُن کے ہاتھ پاؤں باندھ رکھے تھے۔وہ صوبے کا احساسِ محرومی بڑھا کر چلے گئے،اُسے کم نہ کر سکے۔

اب یہ نعرہ وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے لگایا ہے۔

وہ تیس سالہ جمود توڑنے کی بات کر رہے ہیں۔ اتفاق یہ ہے کہ یہ عرصہ بھی بلاواسطہ یا بالواسطہ شریف خاندان سے منسلک رہا ہے۔ وہ اگر یہ کہنا چاہتے ہیں کہ شریف برادران نے پنجاب کو ’’اسٹیٹس کو‘‘ کا شکار رکھا اور آگے نہ بڑھنے دیا، تو گویا وہ بھی ایک بڑا دعویٰ کر رہے ہیں۔یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جمود کی بات وہ کس پنجاب کے لئے کر رہے ہیں؟ وہ پنجاب جو لاہور سے شروع ہو کر لاہور پر ختم ہو جاتا ہے یا وہ پنجاب جو ملتان سے لے کر صادق آباد اور راجن پور تک پھیلا ہوا ہے۔

اگر ’’اسٹیٹس کو‘‘ کی بات کرتے ہوئے پنجاب کو لاہور تک محدود کر دیا جاتا ہے تو احساسِ محرومی کا پروپیگنڈہ دم توڑ دیتا ہے۔پچھلے تیس برسوں میں پنجاب سمٹ کر صرف لاہور تک محدود ہو گیا تھا۔ پچھلے دس برسوں میں تو باقاعدہ یہ احساس دِلایا گیا کہ ’’کرگس کا جہاں اور ہے، شاہیں کا جہاں اور‘‘۔۔۔ شہباز شریف نے سب سے بڑی غلطی یہی کی کہ جنوبی پنجاب کو نظر انداز کیا اور صوبے کے تمام فنڈز لاہور پر لگا دیئے،جس کا نتیجہ عام انتخابات میں بھگتنا پڑا اور جنوبی پنجاب سے مسلم لیگ(ن) کا تقریباً صفایا ہو گیا۔

وہ اربوں روپے کے منصوبے لاہور کی فیشن ایبل بستیوں اور اقتدار کے مراکز کو ایک دوسرے سے ملانے کے لئے ڈیزائن کرتے رہے اور یہ تاثر دیا کہ پنجاب کو ترقی یافتہ بنا دیا گیا ہے۔ حنیف رامے یہ غلطی کرتے رہے کہ انہوں نے پنجاب کا مقدمہ دوسرے صوبوں کے خلاف پیش کیا،لیکن حقوق کی جو پامالی خود پنجاب کے اندر ہوتی رہی، اُس پر اُن کی نظر نہیں گئی، شاید اِس لئے کہ وہ اپنا مقدمہ کمزور نہیں کرنا چاہتے تھے۔

لاہور اور اپر پنجاب کے لئے تو ’’اسٹیٹس کو‘‘بڑا مفید رہا ہے۔ وہاں کے ارکان اسمبلی چاہے اُن کا تعلق تحریک انصاف سے ہی کیوں نہ ہو، اس ’’اسٹیٹس کو‘‘ کے آج بھی حامی ہوں گے۔اصل جمود کا شکار تو جنوبی پنجاب ہے، جہاں ستر برسوں سے محرومی پاؤں پسارے بیٹھی ہے۔

اِن ستر برسوں میں اقتدار کی کرسیاں تو متعدد بار جنوبی پنجاب کو ملیں،لیکن اُن پر بیٹھنے والے یہاں کے نمائندے ہمیشہ مٹی کے مادھو ثابت ہوئے یا پھر وہ نہیں چاہتے تھے کہ اس خطے کا احساسِ محرومی دور ہو، تاکہ اس کی بنیاد پر اُن کا سیاسی سکہ چلتا رہے۔

جنوبی پنجاب درحقیقت بدترین سیاسی جمود کا شکار ہے۔ اس کا احساسِ محرومی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اب ایک ایسا لاوا بن چکا ہے، جو کسی وقت بھی پھٹ سکتا ہے۔یہ پہلا موقع نہیں کہ جنوبی پنجاب کے پاس صوبے کی وزارتِ اعلیٰ ہے۔یہ عہدے تو اُسے ہمیشہ ملتے رہے ہیں،مگر اسے کبھی حقوق نہیں دیئے گئے ۔ صورتِ حال اتنی گھمبیر ہے کہ وزیراعلیٰ عثمان بزدار اپنے عرصۂ اقتدار میں اب تک صرف ایک مرتبہ جنوبی پنجاب آئے ہیں۔

وہ اعلان تو کر بیٹھے تھے کہ ہر مہینے تین دن کے لئے ملتان میں بیٹھیں گے، لیکن اس اعلان پر عملدرآمد کی نوبت آنا تھی نہ آئی۔ وزارتِ اعلیٰ ملنے کے باوجود ابھی تک جنوبی پنجاب کے عوام کو شراکتِ اقتدار کا احساس نہیں ہوا۔ انہیں اب بھی یہی لگتا ہے کہ لاہور کی بادشاہی جاری ہے،بس اُس پر بندہ تونسہ شریف کا بیٹھا ہے۔

جمود توڑنے کے دعوے ہیں تو بہت خوشنما، مگر زمینی حقائق بھی اِن دعوؤں کا ساتھ دیں تو بات ہے۔ اب یہ تو معلوم نہیں کہ جنوبی پنجاب سے اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھنے والے اس کے ذمہ دار ہیں یا پھر تختِ لاہور کی تاثیر ہی ایسی ہے کہ جو اِس پر بیٹھتا ہے، اُسی کا ہو جاتا ہے۔

ایک خیال یہ بھی ہے کہ تختِ لاہور چاہے بھی تو جنوبی پنجاب کے ’’اسٹیٹس کو‘‘ کا خاتمہ نہیں کر سکتا،کیونکہ اِس علاقے میں سرداریاں، وڈیرا شاہیاں اور جاگیرداریاں بہت زور آور ہیں،ان کی موجودگی میں اِس بات کی گنجائش ہی نہیں بنتی کہ جنوبی پنجاب کے کروڑوں باسیوں کو زندگی کے روشن، کشادہ اور ترقی یافتہ چہرے سے آشنا ہونے کا موقع فراہم کیا جائے۔

اسے بھی ایک دلچسپ اتفاق کہا جا سکتا ہے کہ ایک طرف وزیراعلیٰ عثمان بزدار تیس سالہ جمود توڑنے کا دعویٰ کر رہے ہیں اور دوسری طرف ایک عام تاثر یہ ہے کہ وہ کمزور وزیراعلیٰ ہیں،جن کی نظام پر مضبوط گرفت نہیں۔سوال یہ ہے کہ وہ اتنے اہم ٹاسک کو کیسے سرانجام دیں گے؟انہیں اندازہ ہو گیا ہو گا کہ پنجاب کی بیورو کریسی جاگیرداروں، سرداروں اور وڈیروں سے بھی زیادہ منہ زور اور طاقتور ہے۔ بیورو کریسی ہمیشہ تختِ لاہور کی مضبوطی کے حق میں رہی ہے۔ نہ تو وہ لاہور سے باہر اقتدار دینا چاہتی ہے اور نہ وسائل،جمود تو اس بیورو کریسی نے قائم کر رکھا ہے۔

شہباز شریف کو تو صرف الزام دیا جاتا ہے، حقیقت یہ ہے کہ وہ خود بھی اگر چاہتے کہ وسائل کا رُخ جنوبی پنجاب کی طرف موڑ دیں تو انہیں مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا۔ وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے جس دن جنوبی پنجاب کو علیحدہ انتظامی سیکرٹریٹ دے دیا، اُس دن وہ یہ دعویٰ کرنے میں حق بجانب ہوں گے کہ انہوں نے ’’اسٹیٹس کو‘‘ توڑ دیا ہے۔

اس معاملے میں ہم سابق گورنر ملک رفیق رجوانہ کی ہزیمت اور بے بسی دیکھ چکے ہیں،جنہوں نے یہی سیکرٹریٹ بنانے کا اعلان کرنے کی غلطی کی تھی اور بیورو کریسی نے انہیں ناکوں چنے چبوا دیئے تھے۔پنجاب انتظامی طور پر دو حصوں میں تقسیم ہو یا نہ ہو، وہ دو حصوں میں تقسیم ہے۔آج سے نہیں ہمیشہ سے ایک حصہ خوشحال پنجاب کا اور دوسرا حصہ بدحال پنجاب کا۔

یہ ندی کے دو ایسے کنارے ہیں، جو کبھی مل نہیں سکتے۔ وزیراعلیٰ لاکھ کہیں کہ مَیں پنجاب کا جمود توڑ کر رہوں گا، وہ توڑ نہیں سکیں گے۔ وہ خود جنوبی پنجاب سے تعلق رکھتے ہیں،انہیں معلوم ہے کہ جو لوگ یہاں سے اسمبلی میں جاتے ہیں، انہیں یہی پسماندہ، محروم اور محکوم جنوبی پنجاب وارا کھاتا ہے۔ اسی پنجاب سے انہیں ووٹ ملتے ہیں اور اسی کی پسماندگی انہیں وڈیرا بناتی ہے۔

عمران خان نے تو وزیراعلیٰ پنجاب کی یہ خوبی بیان کی تھی کہ اُن کے علاقے میں بجلی نہیں،یہ اگر ’’خوبی‘‘ تھی تو اب ختم ہو گئی ہے،کیونکہ بجلی تو وہ اپنے گاؤں میں لے آئے ہیں،لیکن اصل میں تو یہ بہت بڑی خامی ہے کہ اُس علاقے میں بجلی نہیں تھی، حالانکہ لوگ ووٹ بھی دیتے تھے اور اپنا نمائندہ بھی اسمبلی میں بھیجتے تھے۔

آئیڈیل صورتِ حال تو یہی ہو گی کہ پنجاب میں خوشحال اور بدحال علاقوں کے درمیان تفادت ختم ہو۔ یکساں ترقی کے مواقع ملیں، مگر ’’اسٹیٹس کو‘‘ یہ نہیں چاہتا، وہ اس تقسیم کو قائم رکھنا چاہتا ہے تاکہ حاکم اور محکوم کا تصور قائم رہے۔ اسے توڑنے کے لئے عثمان بزدار کے پاس کوئی جادو کی چھڑی ہے تو ٹھیک،وگرنہ وہ اپنے خالی ہاتھوں سے یہ کرشمہ نہیں دِکھا سکتے۔

(بشکریہ روزنامہ پاکستان، لاہور)

یہ بھی پڑھیں

شہری اراضی کا ریکارڈ کمپوٹرائیشن، بورڈ آف ریونیو کے شعبہ پلس کا قابل فخر کارنامہ، جائیدادوں پر قبضے، جھوٹی درخواستیں، تنازعہ جات کا خاتمہ ہوجائے گا۔

شہری اراضی کا ریکارڈ کمپوٹرائیشن، بورڈ آف ریونیو کے شعبہ پلس کا قابل فخر کارنامہ، …