انسانی حقوق کی منزل: مل جائے گی کبھی نہ کبھی!(امتیاز عالم)

ایک عرصہ ہوا جب 10دسمبر 1948ء کے دن اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے انسانی حقوق کا عالمی اعلامیہ منظور کیا جس کا احترام و نفاذ پاکستان سمیت رُکن ممالک کیلئے لازم ہے۔ اس عہد نامے پر عمل درآمد کیلئے 1966ء میں دو عالمی میثاق منظور کئے گئے:معاشی، معاشرتی اور ثقافتی حقوق کا میثاق؛ شہری اور سیاسی حقوق کا میثاق۔ بعد ازاں عورتوں کیخلاف ہر قسم کے امتیاز کے خاتمے کا معاہدہ، بچوں کے حقوق کا کنونشن، غلامی، محکومی، تشدد (Violence)، جبری مشقت اور ان سے مشابہ اداروں اور روایات کا خاتمہ، ایذا رسانی کے خلاف بین الاقوامی کنونشن، انسانی سلامتی، ماحولیاتی تحفظ، جنگی جرائم کے خاتمے، نسل پرستی اور دہشت گردی کے قلع قمع اور ہر طرح کی انسانی، سماجی، معاشی اور صنفی عدم مساوات کیخلاف عالمی اعلان نامے جاری کئے جاتے رہے۔ اب اقوامِ متحدہ سمیت، بہت سے عالمی ادارے اور تنظیمیں ان تمام حقوق و آزادیوں پر عمل درآمد کیلئے سرگرداں ہیں اور جہاں جہاں ان کی خلاف ورزیاں کی جاتی ہیں، وہاں نہ صرف یہ پہنچتی ہیں بلکہ اُن کے سدِباب کیلئے ممکنہ کوششیں کرتی ہیں۔ پاکستان نے بھی ان اعلامیوں اور میثاقوں پر دستخط کئے ہیں۔ اب جب ہم اس اعلامیہ کا عالمی دن منا رہے ہیں تو ذرا دیکھتے ہیں کہ ان میں شہریوں کیلئے کن حقوق و آزادیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔

شق1۔ تمام انسان پیدائشی طور پر مساوی ہیں اور باہم بھائی چارے کے متقاضی ہیں۔ شق2۔ اس اعلامیے میں دیئے گئے تمام حقوق اور آزادیوں کا اطلاق ہر شخص پر بلا امتیاز رنگ و نسل، جنس و زبان، مذہب اور سیاسی خیالات ہو گا۔ شق3۔ ہر شخص کو حقِ زندگی اور اپنی شخصی آزادی اور تحفظ کا حق ہے۔ شق4۔ غلامی اور بیگار پر پابندی۔ شق5۔ ہر فرد کا تشدد، تضحیک و تذلیل اور غیر انسانی سلوک سے تحفظ۔ شق6۔ ہر انسان کو ہر جگہ اپنی حیثیت منوانے کا حق۔ شق7۔ قانون کی نظر میں ہر فرد ہر اعتبار سے مساوی ہے۔ شق8۔ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی پر قانونی چارہ جوئی کا حق۔ شق9۔ استبدادی گرفتاری (غائب کر دینا)، نظر بندی اور ملک بدری پر پابندی۔ شق10۔ کھلی عدالت میں کسی جرم، الزام اور فیصلے کے خلاف شفاف اور منصفانہ سماعت کا حق۔ شق11۔ کھلی عدالت میں جرم ثابت نہ ہونے تک بے گناہ ہونے کا تصور۔ شق12۔ کسی شخص کی نجی، خانگی زندگی، گھر بار، خط و کتابت میں عدم مداخلت اور عزت و تکریم پر حملے کی ممانعت۔ شق13۔ ہر جگہ سکونت اختیار کرنے کا حق، دوسرے ملک میں پناہ حاصل کرنے اور واپسی کا حق۔ شق14۔ عقیدے کی بنیاد پر ایذا رسانی اور زیادتی سے تحفظ اور بیرونِ ملک پناہ حاصل کرنے کا حق۔ شق15۔ ہر شخص کو قومیت کا حق۔ شق16۔ بلا قیود و حدود شادی کرنے اور خاندان بسانے کا حق۔ تنسیخِ نکاح کا مرد و زن کو مساوی حق۔ شادی میں فریقین کیلئے رضا مندی اور آزادی کا حق۔ شق17۔ تنہا یا مل کر جائیداد بنانیکا حق۔ جائیداد سے محرومی سے تحفظ۔ شق18۔ ہر انسان کو فکر، ضمیر اور مذہب کی آزادی کا پورا حق، جس میں مذہبی آزادی، تبدیلیٔ مذہب اور اپنے مذہب کی تبلیغ و پیروی کا حق۔ شق19۔ حقِ اظہار اور بلامداخلت رائے قائم کرنے، معلومات حاصل کرنے اور اُنکی ترسیل و اشاعت اور نشر کر سکنے بشمول میڈیا کی آزادی۔ شق20۔ پُرامن اجتماع، تنظیم سازی، جلسے جلوس کی آزادی۔ شق21۔ حکومتی امور میں ہر شخص کی براہِ راست، آزادانہ طور پر منتخب کئے گئے نمائندے کے ذریعہ شرکت کا حق۔ شق22۔ حکومتی و ریاستی اتھارٹی عوام کی منشا کی بنیاد پر استوار ہو گی۔ شق23۔ ہر شخص کو معاشرتی تحفظ ہو جو اس کی عزت اور شخصیت کی آزادانہ نشو و نما کیلئے لازم ہے۔ شق24۔ روزگار کے آزادانہ انتخاب، کام کاج کی معقول شرائط اور بے روزگاری سے تحفظ۔ معقول مشاہرے کا حق اور سوشل سیکورٹی۔ شق25۔ آرام و فرصت کا حق، تنخواہ کیساتھ تعطیلات کا حق۔ شق26۔ مناسب معیارِ زندگی کا حق، بشمول خوراک، لباس، رہائش، علاج، تعلیم اور بیروزگاری، بیماری، بیوگی، بڑھاپے اور معذوری سے تحفظ کا حق۔ زچہ بچہ کے حقوق کا احترام و عملدرآمد۔ شق27۔ ہر شخص کو تعلیم کا حق۔ ابتدائی تعلیم لازمی اور مفت ہو جو رواداری، باہمی مفاہمت، دوستی اور امن و آشتی کو فروغ دے۔ شق28۔ ثقافتی زندگی، فنونِ لطیفہ اور سائنس کی ترقی سے مستفید ہونے کا حق۔ شق29۔ تصنیف و تحقیق سے اخلاقی و مالی فائدہ حاصل کرنے کا حق۔ شق30۔ ایسا معاشرتی و بین الاقوامی نظام جس میں ہر شخص وہ آزادیاں اور حقوق حاصل کر سکے جو اس اعلامیہ میں شامل ہیں۔ شق31۔ معاشرتی حقوق پر عملدرآمد، دوسروں کی آزادیوں اور حقوق کا احترام۔ اعلامئے میں بیان کردہ کسی بات سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا جس سے مذکورہ حقوق و آزادیوں کی نفی ہوتی ہو۔

اب ذرا غور کیجئے کہ ان حقو ق و آزادیوں کا ہمارے ملک میں کس حد تک احترام اور ان پر عمل درآمد کیا گیا ہے۔ ان میں اگر معاشی، معاشرتی اور ثقافتی حقوق کے بین الاقوامی میثاق، شہری و سیاسی حقوق کے میثاق، عورتوں اور بچوں اور اقلیتوں سے متعلق اعلامیوں کو شامل کر لیا جائے تو انسانی حقوق و آزادیوں کا ایک وسیع اُفق ہمارے سامنے آ جاتا ہے۔

پاکستان کے عبوری دستور میں انسانی حقوق کا ذکر نہ تھا، البتہ 1956ء کے آئین میں اس بارے میں ایک باب شامل کیا گیا، لیکن 1962ء کے ایوبی آئین میں ابتداً بنیادی حقوق کا باب سرے سے موجود ہی نہ تھا۔ یہ 1973ء کا آئین ہی تھا جس میں انسانی حقوق کے عالمی اعلان ناموں کو سامنے رکھتے ہوئے بہت سے باب شامل کئے گئے۔ پاکستان کو ایک وفاقی جمہوریہ قرار دیا گیا۔ (آرٹیکل 3) استحصال کی تمام اقسام کا خاتمہ۔ (4) ہر شہری کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک۔ (5) دستور و قانون کی اطاعت۔ (6) دستور سے بغاوت غداری ہے۔ (8) بنیادی حقوق سے متصادم قوانین کی تنسیخ۔ (9) حقِ زندگی و آزادی۔ (10) گرفتاری و نظر بندی سے تحفظ، گرفتاری کی صورت 24گھنٹوں میں مجسٹریٹ کے سامنے پیشی، نظر بندی کی مدت کا تعین وغیرہ۔ (10A) شفاف، معقول اور منصفانہ طریقے سے انصاف کی فراہمی۔ (11) غلامی و بیگار کی ممانعت (12) مؤثر بہ ماضی سزا سے تحفظ۔ (13) دہری سزا سے تحفظ۔ (14) شرفِ انسانی اور گھر کی خلوت کا تحفظ۔ (15) نقل و حرکت کی آزادی۔ (16) حقِ اجتماع، پُرامن جلسہ و جلوس کی آزادی۔ (17) انجمن سازی، سیاسی جماعت، ٹریڈ یونین، طالب علم تنظیم، پیشہ ور تنظیم، رفاہی تنظیم و دیگر سماجی و روحانی جتھہ بندیوں کا حق۔ (18) کاروبار کی آزادی۔ (19) آزادیِ اظہار، تحریر و تقریر کی آزادی اور میڈیا کی آزادی۔ (20) مذہبی آزادی، مذہبی رسومات اور اپنے اپنے مذہب کی تبلیغ کی آزادی۔ (21) کسی خاص مذہب کی اغراض کیلئے محصول لگانے سے دوسرے مذاہب والوں کو تحفظ۔ (22) کسی کو کسی دوسرے مذہب کی تعلیم یا رسومات کا پابند نہیں کیا جائے گا۔ (23) نجی اور شراکتی کاروبار کا تحفظ۔ (24) حقوقِ جائیداد کا تحفظ۔ (25) شہریوں کے بلاامتیاز مساوی حقوق۔ (26) تعلیم کا حق:پانچ سے سولہ سال کی عمر کے تمام بچوں کیلئے مفت اور لازمی تعلیم۔ (27) عوامی مقامات میں داخلے سے متعلق عدم امتیاز۔ (28) بلاامتیاز ملازمت کا حق۔ (29) زبان و رسم الخط اور ثقافت کا تحفظ۔ (30) علاقائی اور دیگر زبانوں کی بنا پر تفریق و تعصبات کی حوصلہ شکنی۔ (31) قومی زندگی میں عورتوں کی مکمل اور مساوی شرکت۔ (32) خاندان کا تحفظ۔ (33) اقلیتوں کا تحفظ۔ (34) معاشرتی انصاف کا فروغ۔ (35) عوام کی معاشی اور معاشرتی فلاح و بہبود کا فروغ وغیرہ۔

جس ملک میں 1973ء کے آئین کو تین بار توڑا گیا ہو اور جمہوری عمل کو بار بار تاراج کیا گیا ہو، وہاں جمہوری حقوق و آزادیوں کا کوئی کیا احترام کرے گا۔ لیکن اس کے باوجود آزادیٔ جمہور کے زمانے کے خواب دیکھنا، سماجی و انسانی نجات کیلئے کام کرنا اور ایک ظلم و استحصال سے پاک پُرامن و خوشحال ترقی یافتہ سماج، انسانیت و مساوات، رواداری و بردباری اور ایک خوبصورت ترقی یافتہ عوامی اور وفاقی جمہوریہ پاکستان کیلئے جہدِ مسلسل ہی ہمارا مقصدِ حیات ہو تو وہ منزل مل جائے گی کبھی نہ کبھی!

(بشکریہ جنگ، لاہور)

یہ بھی پڑھیں

شہری اراضی کا ریکارڈ کمپوٹرائیشن، بورڈ آف ریونیو کے شعبہ پلس کا قابل فخر کارنامہ، جائیدادوں پر قبضے، جھوٹی درخواستیں، تنازعہ جات کا خاتمہ ہوجائے گا۔

شہری اراضی کا ریکارڈ کمپوٹرائیشن، بورڈ آف ریونیو کے شعبہ پلس کا قابل فخر کارنامہ، …