میڈیا اور پاک فوج(ڈاکٹر مجاہد منصوری)

(میڈیا92نیوز)
پاکستان کی 70سالہ تاریخ تجربات سے بھرپور تاریخ ہے جس نے ہمیں ایک مستحکم ریاست اورخوشحال بننے کے اتنے اسباق دیئے ہیں کہ شاید ہی اتنی عمر کی کسی اور ریاست کو یہ کچھ تلخ و شیریں حاصل ہوا ہو، جو ہمیں ملا۔ جنگ ِ عظیم دوم کے بعد جو جدید دنیا تشکیل پائی، وہ ماضی کے مقابل کہیں زیادہ آزاد، محفوظ، خوشحال اور مستحکم توہوئی اب جبکہ اس صورت کے نتیجے میں بہت سی نحیف، غیرمستحکم اور قدرے سنبھلی ہوئی اقوام اپنے بڑے بڑے بحرانوں سے نمٹتی کچھ سنبھلنے لگیں اور ان کے مقابل نئے طاقتور اورغالب خطوں اور مملکتوں کی اہمیت کم ہو کر ترقی پذیر دنیا میں شیئر ہونے لگی تو بڑے اور اہم ممالک نے اس کی رفتار کو کم کرنے کے لئے یا تو تنازعات پیدا کئے، یا انہیں برقرار رکھ کر ہوا دی اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے برعکس اپنے اپنے قومی مفادات کی آڑ میں اس منفی رویے پر، جو چارٹر سے متصادم ہے، چپ سادھنے کو اپنی خارجہ پالیسی بنالیا۔تنقید تو مختلف جانب سے بہت ہوتی ہے۔ ہم نے نقصان بھی بے تحاشا اٹھایا لیکن پاکستان جنم لیتے ہی عالمی سیاست کی بڑی گیمز میں شریک ہوگیا۔ یہ آج بھی خاصا قابل مکالمہ ہے کہ پاکستان نے اپنی تاریخ میں سلامتی اور خارجہ امور کے حوالے سے جو یہ پوزیشن لی، وہ آج کے تجزیوں کے مطابق کیونکر قابل جواز تھی؟ یا یہ سراپا خسارہ ہی تھا۔آج صرف پاکستان کی حکومت یا افواج نے نہیں نہ فقط عوام کے ایک غالب حصے نے بلکہ عالمی سیاست میں بڑے کھلاڑیوں نے خود ہی یہ واضح کردیا کہ پاکستان بہرحال ایک سیکورٹی اسٹیٹ ہے جسے ہر لمحے اپنی سیکورٹی پر چوکس رہنا ہے۔ اس کے لئے عالمی سیاست کے بڑے کھیلوں میں ایک طرف ہو کر اپنی کوئی پوزیشن لے لینا یا ہمسائے میں ایٹمی طاقت کے مقابل ایٹمی طاقت بن جانا ہی کافی نہیں، اپنی سلامتی و استحکام کو یقینی بنانے کے لئے، زمانے کے رجحانات و رویوں پر گہری نظر رکھتے ہوئے جملہ اہتمام کرنا ہیںاور ہردم چوکس رہنا ہے۔ دنیا میں اسلحے کی اہمیت دوسری جنگ ِ عظیم کے بعد اس وقت کم ہونے لگی جب ایک سے بڑھ کر ایک وسیع تر تباہی پھیلانے والے اسلحے (WMD) کی تیاری ہوتی رہی جو تادم جاری ہے، لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ اگر ان پانچ چھ عشروں میں کمیونی کیشن (ابلاغ) شدت سے استعمال ہونے والا سافٹ ویپن (نرم ہتھیار) نہ بنتا تو تیسری جنگِ عظیم کو نہیں روکاجاسکتا تھا، جو ہونے سے پہلے نئے ہتھیار سائیکلوجیکل وارفیئر (سرد جنگ) میں تبدیل ہوکر رکی رہی وگرنہ WMDsکے استعمال سے نہ جانے اب تک دنیا کتنی تباہ ہوچکی ہوتی، یقیناً بے پناہ۔ پاکستان سرد جنگ میں کمیونسٹ بلاک کے مقابل امریکن اینگلو بلاک کاایک اہم اسٹرٹیجک اور آپریشنل پارٹنر رہا ہے۔ آج ایک بڑا تجزیہ ہمارا اپناہی ہے کہ یہ ہم نے بڑی غلطی کی تھی، لیکن یہ درست نہیں ہے۔ اس میں پارٹنر بن کر ایک تو اپنی سیکورٹی ضروریات پوری کیں، باوجود اس کے کہ بھارت کے براہ راست خطرات اور جنگوں میں امریکہ نےہمارا ساتھ تو کیا دینا تھا، بھارت کےروس کی جانب واضح جھکائو کے باوجود اس کی ہی پذیرائی کی کہ وہ بڑا ملک اور سیکولر جمہوریہ ہے، لیکن اس کے باوجود اگر ہم نے افغانستان میں سوویت جارحیت اور نیم قبضے پر آزاد دنیا کاساتھ نہ دیاہوتا تو آج سنٹرل ایشیا کی لینڈ لاک اسٹیٹس تک پہنچ کی سب سے مناسب راہ اورپھر چین کے خلیج کے دہانے تک رسائی کی راہ کے حوالے سے جو نئی تذویراتی اہمیت ملی ہے وہ ہمیں نہ ملتی، پھر سب سے بڑھ کر سنٹرل ایشیا اور گرد و نواح کی درجن بھر لینڈ لاک کو جو آنجہائی سوویت ایمپائر سے آزادی ملی وہ نہ ملتی جبکہ یہ سب مسلم اکثریت کی محبوس ریاستیں تھیں۔ سوویت یونین کے انہدام کے ساتھ ان کی آزادی، زمانے کی عظیم تر کامیابی ہے جس میں بوجوہ دنیا کے آنکھیں بند کرنے کےباوجود پاکستان کاکردارہی تھا کہ یہ انہونی ہوگئی اور جو کچھ نائن الیون کے بعد پاکستان اور اس کی شمال اور مغرب کی سرحدوں اور اندرون ملک ہوا اورہم اس سے جیسے نمٹے، جتنی بڑی کامیابی کےساتھ، اس نے پاکستان کی دفاعی صلاحیت کادرجہ اتنابلند کردیا ہے کہ اب بھارت ہویا امریکہ اور اس کا ملٹری اڈا افغانستان، یا سنٹرل ایشین ریاستیں یا چین اور روس یہ اپنے دفاع و سلامتی اور ان خطوں میںقومی مفادات کو پاکستان کو مائنس کرکے محفوظ کر ہی نہیں سکتے۔ پاکستان کو پہلے تو دہشت گردی کی جنگ فرنٹ لائن پارٹنر اوربےمثال کردارکے باوجود’’ڈومور‘‘ کے دبائومیں لا کر کوئی نئی پوزیشن لینے سے روکنے کی ہرممکن کوشش کی گئی اور جب پاکستان نےاپنی نئی جیوپولیٹیکل پوزیشن اور اس سے بھی بڑھ کر ظہور پذیر جیواکنامک حیثیت کی شناخت کرتے ہوئے اپنے عظیم دوست چین سے سی پیک کا معاہدہ کیا تو اس پر بھارت کے تلملانے اور واشنگٹن کے رویے نے ثابت کردیاکہ پاکستان بہرحال بنیادی طور پر ایک سیکورٹی اسٹیٹ ہے، کیونکہ جب اسلام آباد نے بھارتی اورٹرمپ انتظامیہ (امریکہ نہیں) کے سی پیک پر عملدرآمد کے آغاز پرردعمل کی پرواہ نہیں کی تو افغان سرزمین کو استعمال کرکے ایکبار پھر پاکستان کو دہشت گردی میں جکڑنے کی ذہنیت کاعملی مظاہرہ کیاگیا حتیٰ کہ ہماری قومی انتخابی مہم کو سبوتاژ کرنے کے لئے کوئٹہ اورپشاور میںانتخابی مہم پر خودکش حملے کرائے گئے، یہ جسارت اور دیدہ دلیری کہ کل بھوشن یادیو کی پاکستان میں اسیری کو نظرانداز کیاگیا۔ خودبھارت اپنی نئی اور آنے والی نئی نسل کے وسیع تر مفادات کو نظرانداز کرکے یہ سب کچھ کرتارہا ہے۔

اس پس منظر میں نئے انتخابات کے نتیجے میں آج پاکستان میں ایک ایسی حکومت وجود میں آچکی ہے جو امن کی حقیقی خواہاں ہے اور دفاعی پالیسی میں، افواج پاکستان کی لی گئی نئی پوزیشن کے ساتھ مکمل طور پر ایک پیج پر ہیں۔ ہمیں یہ تلخ حقیقت نہیں بھولنی چاہئے کہ انتخابات سے قبل ن لیگی حکومت نے پاکستان کی سلامتی اورخارجہ امور میں اپنی لی گئی علیحدہ پوزیشن کودرست ثابت کرنے کے لئے میڈیا کے ایک محدودسیکشن کا سہارا لیا جس سے عمومی ابلاغ کے برعکس واضح طورپر سوائے آپریشن ضرب ِ عضب کے خارجی اور دفاعی امور پر حکومت اور اسٹیبلشمنٹ مکمل طورپر ایک پیج پر نہیں رہے۔ اسی تناظر میں آج جب خارجہ اور سلامتی امور کے حوالے سے ہر دو حکومت اور افواج پاکستان مکمل طور پر ایک پیج پر ہیں اور صدر ٹرمپ کے پاکستان مخالف ٹویٹ کو پینٹاگان نے جوابی برعکس ٹویٹ کرکے صدر ٹرمپ کی سلامتی اورخارجی امور میں اپنی شرکت کی اہمیت کو سمجھانے کی کوشش کی ہے، یہ ہمارے لئے بھی بڑا سبق ہے کہ اس حساس موضوع پر حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کا الگ الگ یا دور دور رہنا کسی صورت نہیں بنتا۔ سو، افواج پاکستان کے ترجمان کی خواہش کا یہ اظہار کہ ’’میڈیا 6ماہ صرف ترقی دکھائے‘‘ بہت اہمیت کاحامل ہے، لیکن اس کے لئے اس خواہش کو Rationalizeکرنےکے لئے ایک بہت علمی اور پیشہ ورانہ اندازکے مکالمے اور مسلسل انٹریکشن کی ضرورت ہے جسے اسٹیٹ اور خودپاکستانی میڈیا سسٹم کاحصہ بننا چاہئے۔ یہ ذہن نشین رہے کہ پاک فوج ففتھ جنریشن وار فیئر کے جس مفہوم کو قوم پر واضح کرنا چاہتی ہے، وہ میڈیا اور اسٹیٹ سسٹم نے مل کر لڑنی ہے اور اس کے لئے ہم سب کا ایک پیج پر ہونا ضروری ہے۔ پاکستانی میڈیا یقیناً ترقی پذیر تو کیا مغربی دنیا کے میڈیا کے مقابل بھی میڈیا فریڈم کابڑا علمبردارہے اوراس لحاظ سے بے پناہ حاصل آزادی کو استعمال کرتے ہوئےضرورت سے بھی زیادہ دبنگ۔ لیکن یہ غیر پیشہ ورانہ انداز میں غیر ذمہ دار بھی، جو کہ کچھ حوالے سے ثابت شدہ ہے لیکن ثابت دلیل و سنجیدہ ابلاغ میں ہی ہوسکتاہے ، لیکن ہمیں بحیثیت قوم یہ نہ بھولنا چاہئے کہ پاکستانی میڈیا ہمارا عظیم قومی اثاثہ ہے جس کے پری پارٹیشن کردار نے پاکستان بنانے اور قیام پاکستان کے بعداس کی ترقی و استحکام میں اہم ترین کردار ادا کیا ہے۔ جو بھی پوزیشن لیں وہ جوش کے بجائے ہوش سے لینی چاہئے۔
(بشکریہ جنگ لاہور)

یہ بھی پڑھیں

شہری اراضی کا ریکارڈ کمپوٹرائیشن، بورڈ آف ریونیو کے شعبہ پلس کا قابل فخر کارنامہ، جائیدادوں پر قبضے، جھوٹی درخواستیں، تنازعہ جات کا خاتمہ ہوجائے گا۔

شہری اراضی کا ریکارڈ کمپوٹرائیشن، بورڈ آف ریونیو کے شعبہ پلس کا قابل فخر کارنامہ، …