کالم

لوگ اتنی جلدی بدلتے کیوں ہیں؟

تحریر:نعیم بخش تارڑ
اسسٹنٹ ڈائریکٹر لینڈ ریکارڈتحصیل لاہور کینٹ
میں اپنے آفس میں روزمرہ کے کاموں میں مشغول تھا۔ ایک دم سے دروازہ کھلتا ہے تو نظر کے سامنے ایک پرانے دوست کا چہرہ نظر آتا ہے۔ آتے ساتھ وہی جملہ کہ کبھی دنیا میں بھی دیکھ لیا کرو۔ پہلے کتابوں میں مصروف رہتے تھے اور اب اس آفس کی جان نہیں چھوڑتے ہو۔ کیا رکھا ہے اتنی محنت اور ایمانداری میں سوائے ٹینشن، بھوک اور زندگی گزارنے کی جنگ کی سوا۔ مجھے دیکھو ایک سال میں اس سرکاری نوکری سے کیا کچھ نہیں بنا لیا ہے۔ گاڑی، عالیشان گھر اور زندگی کی تمام رنگینوں سے روز دل کو بہلاتا ہوں۔ میں نے گھنٹی بجا کر ملازم کو چائے لانے کا بولا اور ساتھ دماغ میں ماضی کی پرانی باتیں مجھے دس سال پیچھے پنجاب یونیورسٹی میں لے گئیں جہاں پر ہاسٹل کے روم سے لے کر کینٹین ، باہر فروٹ شاپ اور کالج کے گراونڈ میں ملکی حالات ، سسٹم کی خرابی اور کرپشن پر اتنی بحث ہوتی تھی کہ گھڑی کی رفتار بھی بہت تیز لگتی تھی کہ کب رات کے دو بج جاتے تھے اور پورا کیمپس نیند کی آغوش میں چلا جاتا تھا۔ لیکن ادھر سسٹم کا رونا جاری ہوتا تھااور اس بحث میں سب سے زیادہ باتیںکرنے والا یہی آفسر ہوتا تھا۔ جو کہتا تھا کہ ہم اس سسٹم کو ٹھیک کر دیں گے اپنے اپنے لیول پر حقیقی تبدیلی لے آئیں گے۔ ملک کا نظام تو ہم بدل نہیں سکیں گے لیکن جس ڈیپارٹمنٹ میں بھی گئے اس آفس کی حد تک فلاح انسانیت کے علمبردار ہوں گئے۔ غریبوں اور بے سہارا لوگوں کو ہمارے دروازے پر روکنے والا کوئی نہیں ہو گا۔ سچ اور ایمانداری کی عمدہمثالیں قائم کر یں گے۔لیکن انسان اتنی جلدی بدل جاتا ہے یہ خیال اس وقت کبھی پیدا ہی نہیں ہوا تھا۔ ضرورتیں بدلتی ہیں یا انسان دوسروں کو دیکھ کر رنگ پکٹر لیتا ہے۔اپنی اسٹوڈنٹس لائف میں ایمانداری کی باتیں وقتی ابال ہوتا ہے اور وہ فطری کرپٹ تھے یا اس نظام نے ان کو کرپٹ کر دیا۔ اپنی سٹوڈنٹ لائف میں انسانیت کی خدمت کے جذبے سے بھرپور آج اتنے سفاک، ظالم اور کرپٹ کیوں ہو گئے ہیں؟ کیا ان کو موقع ملنے کی کمی تھی یا ایمان کی کمزوری ان کو اس راستے پر لے آئی ہے۔ اللہ تعالی کی ذات پر یقین کم ہو گیا ہے یا کرپٹ لوگوں کی تقلید میں خود کو اس دلدل میں پھنسا بیٹھے ہیں۔مظلوم بے سہارا لوگوں نظر نہیں آتے یا نوٹوںکی چمک نے ان کی آنکھوں کی بینائی خرید لی ہے۔ دکھی لوگوں کی آواز کانوں تک پہنچتی نہیں ہے یا بنیک بیلنس کے چکر میں اے ٹی ایم مشین کی گرج نے قوت سماعت کمزور کر دی ہے۔ اپنے ملک کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ نہیں رہا ہے یا بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کی روش کا شکار ہو گئے ہیں۔ ذہن بدل گئے ہیں یا ان کی یاداشت کمزور ہوگی ہے۔ بڑے بڑے دعوے کرنےوالے جیسے ہی اکیڈمی سے ٹریننگ لے کر نکلتے ہیں تو اتنی چھوٹی چھوٹی باتیں کرنے پر کیوں تل جاتے ہیں۔ بڑی کرسی پر بیٹھنے کے بعد اتنے پست قد کیوں ہو جاتے ہیں تنخواہ لینے کے باوجود کیوں خرچ لینے کی عادت اپنا لیتے ہیں انسانوں کو گلے لگانے والے ہاتھ تک ملانے سے کیوں عاری ہو جاتے ہیں جتنا سوچتا ہوں اتنا الجھتا جاتا ہوں۔لیکن جب چند اور دوستوں کی طرف نظر جاتی ہے تو دل میں سکون کی لہر اٹھتی ہے کہ سارے نہیں بدلتے۔ چند سر پھیرے اسی ڈگر پر قائم ہیں جو وہ سٹوڈنٹ لائف میں سوچا کرتے تھے۔ جن کے دروازوں پر کوئی چوکیدار نہیں ہوتا ہے جن کو نہ تو کسی انسان سے خطرہ ہے اور نہ اس کرپٹ نظام کے انسان نما حیوانوں سے جو جہاں جاتے ہیں مظلوم اور دکھی عوام کے لئیے خوشی کا سبب بنتے ہیں۔ جو بڑے بڑے عہدوں پر پہنچنے کے باوجود ایک سادہسی زندگی گزار رہے ہیں۔ جن کا آج بھی یقین اللہ تعالی کی ذات پر پہلے سے بھی کہیں زیادہ مضبوط ہو چکا ہے جنہوں نے اپنی زندی کی ڈور اللہ تعالی کے ہاتھ میں دے رکھی ہے جو سینہ تان کر اس ظلم کے نظام کے آگے کھڑے ہو جاتے ہیں جو کیرئیر کی پرواہ کیے بغیر بڑے افسروں کو بھی سر ہلا کر غلط کام پر انکار کر دیتے ہیں ان کو دیکھ کر دل میں امید کی شمع روشن ہوتی ہے کہ یہ نظام بدلے گا۔ برائی ختم ہو گی۔ انصاف ملے گا۔کرپشن خود دور بھاگے گئی۔ لوگوں کا اعتماد بحال ہوگا۔ ملک میں حقیقی تبدیلی آئے گئی۔ آئیے عہدکریں ہمیں اپنے اپنے حصے کی شمع روشن کر کے رکھنی ہے۔ آئیے اندھیرے میں اپنا اپنا چراغ جلائے رکھتے ہیں شاید ہمیںدیکھ کر کوئی اور بھی اپنا چراغ روشن کر لے۔ بجھے ہوئے چراغ دیکھ کر ہمیں اپنے چراغ بجھانے نہیں ہیں بلکہ ان کو اور شدت سے جلانا ہے تا کہ ان کی روشنی دور تک پھیل سکے۔

Back to top button