کہتے ہیں وہ شرو ع سے اےسا نہےں تھا ،بلکہ اب بھی وہ کب اےسا تھا کو ئی مان ہی نہں سکتا کہ ےہ واقعہ اُس سے سرزد ہوا ۔ انہی گلےو ںمیں اُس کا بچپن اور لڑکپن گزرا تھا۔محلے مےںبچے ،بالے ،نوجوان ،بوڑھے ،مردوزن سبھی اُس کے حسن اخلاق کے معترف تھے ۔ بستی کے نوجوانوں کے برعکس اُس کی تعلےم بھی بہتر تھی ،گھر میں رنگ وروغن کروانے سے لے کر بچو ں کی تعلیم و تربیت تک کے مشورے اُس سے لیے جا تے ۔ متوسط اورکمزور معاش والو ں کی بستی تھی ۔اےسی بستےو ں میں ہسپتال سے کسی بھی طرح وابستہ افراد ، لےبا رٹری سپر وائزر ، وارڈبوائے ےا کمپوڈر وغےرہ شام کے ا وقات مےں چھو ٹے چھو ٹے مطب کھو ل کے بےٹھ جا تے ۔جہا ں پر مرےضوں کا تانتا سا باندھا رہتا، معمولی بےما رےو ں کے لےے عمومااےسے معا لج کا ر آمد ثا بت ہو تے ۔لےکن ےہا ں آنے والے مرےضوں کو دوا سے زےا دہ معا لج کی باتوں سے افا قہ ہو جا تا کےونکہ مرےض کی باتےں بڑے اطمےنان سے سنی جا تےںاورتسلی آمےزجملوں سے اُن کا حوصلہ بڑھاےا جا تا ہے ۔
احمد حسن بھی سرکا ری ہسپتا ل مےں وارڈ بوائے تھا اور شام کے اوقات مےںچھو ٹے سے مطب مےں مرےض دےکھتا تھا۔اس حوالے سے قانونی سقم موجود ہو نے کا بھی اُسے فہم تھا اسی لےے وہ ہو مےو پےتھی کے اےک کالج مےں زےر تعلےم تھا ۔مطب پر سہ پہر سے ہی مرےضوں کا رش لگنے کی بڑی وجہ معمولی فےس کے عوض اُس کا دواتجو ےز کردےنا تھا ۔ زےا دہ پےسو ں کا اُ س نے کرنا بھی کیا تھا گھر مےں تھا ہی کون تھا جس کے لےے اُسے رقم کی ضرورت ہوتی اےک ماں ہی ماں تھی ۔باپ تو مدت ہو ئی اےک روڈ اےکسےڈنٹ مےں چل بسا تھا ۔چھو ٹی بہن کو بچپن مےں موذی بےما ری نے آن لےا اور وہ بھی باپ کے پاس چلی گئی ۔
احمد حسن چند اُصولو ں پر کار بند تھا معمولی نوعےت کی بےما رےو ں کی تو دوا لکھ دےتا لےکن سنجےدہ نو عےت کے کسی بھی مرض کی صورت مےں مرےضوں کو فورا سے کہہ دےتا کہ آپ صبح ہسپتا ل آجا ئےں مےں اُدھر آپ کو چےک کروادوں گا ۔ اےسی بستےو ں مےں صحت کے معاملات اےسے ہی چلتے آئے ہےں اور شا ےد اےسے ہی چلتے رہےں گے ۔وہ بھی اپنے تئےں پو ری آبادی کے مرےضوں کی دےکھ بھا ل پر مامور تھا ۔
سب کچھ ٹھےک سے چل رہا تھا جب احمد حسن کو عشق ہو گےا عشق بھی بے تال سا تھا ، اُسے عشق کسی فرد سے نہےںبلکہ سراپا سے ہو ا تھا ،کہتے ہےں بستی کے کسی خوشحال گھرانے مےں مہما ن آئی لڑکی عزےزہ کے ساتھ بخا ر کی دوا لےنے اُس کے مطب آئی۔خاتون مرےضوں کے چہرے کی طرف نگا ہ کرتے اُسے لاج آتی تھی ، بہت ضرورت کے تحت اےسا کرتا ورنہ اپنے مےز پر رکھے قلم کا غذ پر نظرےں جمائے رکھتا ، اور مرےض کی بات تسلی سے سن کر پہلے تو اےسا حوصلہ دےتا کہ مرےض خوشگوار تبدےلی محسو س کرتا ،پھر دوا تجو ےز کر دےتا ۔ خاتون مرےضہ کے ساتھ بھی اُس نے معمول کا برتا و کیا کچھ بھی نےا نہےں ہوالےکن اُس کا سرا پا احمد حسن کے ذہن مےں اےسا نقش ہو اکہ تا عمر بھلا ےا نہ جا سکا ۔کچی عمر کے عشق اےسے ہی ہوا کرتے ہےں۔خاتون کو تو چند دن کی دوا کے بعد افاقہ ہوگےا لےکن احمد حسن اس نفسےا تی عارضے سے صحت ےاب نہ ہو سکا ۔
احمد حسن کی تو کا ےاپلٹ ہو گئی ، کچھ سُجھائی نہ دےتا وہ کےا کرے اور کیا نہ کرے کسے بتائے کس سے چھپا ئے ، چند ہی دوست تھے اُنہےں اُس نے اپنی کےفےت بتا نے کی کو شش کی لےکن اُس کی بے ربط با تےں اُن کی سمجھ مےں نہ آسکےں وہ اصرار کرتے کہ عشق کسی مخصوص فرد سے ہو تا ہے ،سرا پا سے کسی خا ص جسما نی بنا وٹ سے عشق ےہ بے تُکی بات ہے۔اب اُس نے لوگوں سے اےسی باتےں کرنا بھی چھوڑ دیں ۔ لےکن احمد حسن کی آنکھےں، چہرہ دےکھے بغےر صنف نازک کے سراپا کو ٹٹولتی رہتےں ،جےسے اُس کا کچھ کھو گےا ہو ، اس ہےجان کی وجہ سے مطب پر بھی وہ ےکسو ئی سے کام کرنے سے قاصر رہتا ،اکثرکلےنک بند رہنے لگا ،ہسپتا ل مےں بھی اُس کی متلا شی آنکھےں بے چےن ہوتےں۔
جہاں سارے محلے نے اس تبدےلی کو محسو س کیا وہا ں احمد حسن کی ماں کےسے نا واقف رہ سکتی تھی لےکن اُسے کچھ سمجھ نہ آتی ےکا ےک اُ س کے جواں سال بےٹے نے کےا روگ پال لیا ہے ۔اےسے مےں بوڑھی ماں نے بھی وہی کیا جو مائےں کےا کرتی ہےں ، لاکھ پو چھا بےٹا بتا دے کہےں شا دی کروانا چا ہتا ہے تےری کو ئی پسند ہے تو بتا، جو مجھ سے بن پا ےا کروں گی جس کا کہے گا وہی دُلہن لا نے کی کو شش کر وں گی ، لےکن احمد حسن کی چپ نہ ٹو ٹی ،وہ بے چا را بتاتا بھی تو کیا؟ اُس کی باتےں کسی کی سمجھ مےں نہ آتےں ،ماں کو بتا کردُکھی کیو ں کرتا ؟آخر جب کچھ سمجھ نہ آےا تو اُس کی والدہ نے رشتے کی تلا ش شرو ع کر دی اُسے ان باتو ں سے بھی کو ئی واسطہ نہ تھا ،وےسے بھی اُسے اےسی باتو ں سے لاج آتی تھی وہ تو اس حوالے سے بھی انجان تھا کہ جس خاتون کے سراپا سے اُسے عشق ہوا تھا وہ شا دی شدہ ہے ےا کنوا ری ؟نہ ہی وہ ماں سے اےسی کسی خاتون کا ذکر کرنا چا ہتا تھا ۔ہاں اتنا ضرور تھا اُس نے اشاروں و کنا ےو ں مےں ماں سے اپنے تخےل والی دُلہن کا سراپا بتا نے کی اپنے تئےں کو شش ضرور کی تھی اُس مےں وہ کتنا کامےاب ہوا ےہ تو بعد مےں ہی پتا چلنا تھا ۔
ےہا ں تو چٹ منگنی پٹ بےا ہ سے بھی جلدی سب کچھ ہوا ،دھڑکتے دل کے ساتھ اُس نے پہلی رات جب دُلہن کو دےکھا تو دل بےٹھ سا گےا ،اُس نےک پروےن کا سرا پا اُس کے ذہن کے تخےل کردہ سراپا سے ےکسر مختلف تھا ۔ اس جھٹکے کے بعد دن اور راتےں گزاری نہےں کا ٹےں گئےں ، وہ لا کھ کو شش کے باوجود کچھ بھی اےسا کرنے مےں ناکام رہا جو رشتہ ازدواج کو قائم رکھنے کے لےے ضروری تھا ، اےسا نہےں کہ وہ کسی بےما ری کا شکا ر ہو ےا اُسے کو ئی جسما نی عارضہ لا حق ہو ،اُسے تو بس عشق اےک خاص سراپا سے تھا ۔ےہ عشق ، ذہن کی خود سا ختہ اخترا ع ےاہےجان تھا اُسے کچھ خبر نہ تھی۔
جو بھی تھا بہر حال اُس کے لےے سود مند نہ تھا ، شادی زےا دہ دن نہ چل سکی ،چلتی بھی کےسے وہ دن خواب ہو ئے جب عورتےں اےسے رازوں کو سےنے مےں چھپا کر ،مصلحتو ں کے پےش نظر حالات سے سمجھوتا کر لےتےں تھےں اور شادی شدہ ہو نے کے باوجود باکرہ ہی مر جا تی تھےں ۔خےر زمانہ تو کب کا بدل چکا تھا احمد حسن کو کون سمجھا تا اور اُس سے بھی بڑھ کر اُس کی ماں کو کون بتاتا جس نے اُوپر تلے احمد حسن کی تےن شا دےاں کر دےں لےکن نتےجہ صفر، کسی نے ہفتہ صبر کیا تو کسی نے مہےنہ ،آہستہ آہستہ محلے مےں مشہو ر ہونے لگا کہ وہ ڈاکڑ بابو تو نامرد ہے کچھ اُس سے بن نہےں پا تا ، تبھی تو تےنوں بےو ےا ں چھوڑ گئےں ، محلے والےا ں باتےں کرتےں آئے ہا ئے کیا سوجھی تھی انہےں جو تےن ،تےن لڑکےو ں کی زندگےا ں برباد کر دےں۔وہ کسی کو کیا بتاتا کہ وہ ٹھےک ہے لےکن اُس کا مسئلہ نفسےا تی ہے کون اُس کی لا ےعنی باتےں سنتا اور سمجھتا ۔
بوڑھی ماں کے پاس لے دے کے اےک بےٹا ہی بےٹا تھا جس کے کل تک سب معترف تھے آج اےسی ایسی باتےں ہو رہی تھےں جن مےں کچھ سچ اور زےا دہ مبا لغہ آرائی تھی۔زےب داستان کے لےے اےسی باتےں بھی پھےلا ئی گئےں جن کا حقےقت سے دور کا واسطہ نہےںتھا ۔احمد حسن ےہ من گھڑت باتےں جےسے تےسے برداشت کر لےتا ،وےسے بھی اُسے کچھ احسا س نہ تھا وہ تو ابھی تک اُسی سراپا کے تخےل مےں دن رات کا ٹ رہا تھا ، لےکن ماں ان طنزےہ باتو ں کو برداشت نہ کر سکی اور دائمی روگ پا ل لےا جس سے قبر مےں جا کر ہی چھٹکا را مل سکا۔
ماں کی موت وہ پہلا حادثہ تھا جس نے احمد حسن کوتخےل سے حقےقی زندگی مےں واپس لانے کا کام کیا ۔لےکن اب حالات بہت بدل چکے تھے محلے والو ں کی نظر مےں اب وہ سب کی آنکھو ں کا تارا اور بستی کے لوگو ں کا سہا را احمد حسن نہےں رہا تھا ، وہ تو اب اےک اےسا نامرد شخص تھا جو کسی خبط کاشکا ر تھا جس سے زمانہ نا بلد تھا ، لےکن اُس کی ناکام شا دےو ں اور قصے کہا نےو ں نے اُس کے نامرد ہونے پر معا شرے کی نظر مےں مہر ثبت کر دی تھی ۔معا شرے کے لےے اب وہ اےک اےسا شخص بن چکا تھا جس نے دانستہ طور پر تےن لڑکےو ں کی زندگےو ں مےں خلل ڈالا تھا اور عام زبان مےں برباد کی تھےںاور اسی روگ نے اُس کی ماں کی جان لے لی تھی ۔ سراپا کا عشق اور تخےل کی دنےا کا نشہ اب ہرن ہو چکا تھا ، احسا س ندامت کچوے لگا تا وہ اپنی خفت مٹا نا چاہتا تھا ،زمانے کو بتا نا چاہتا تھا اُس کی مردانگی کو لے کر جتنے قصے ہےں سب افسا نے ہےں کون اُس کی باتو ں پر ےقےن کرتا اور لوگو ں کے پاس ےقےن کرنے کی نہ تو کو ئی وجہ تھی اور نہ ہی اُنہےں ضرورت تھی کےو نکہ اب والے احمد حسن کی صورت اُنہےں اےک اےسا کردار مل چکا تھا جس کے حوالے سے جتنے چا ہو ، قصے تخلےق کر لو ، محفل گرما نے کے لےے احمد حسن کی شادےو ںکے حوالے سے چٹ پٹی باتےں بہترےن مواد کا درجہ لے چکی تھےں۔
احمد حسن کے پاس زندگی کا واحد مقصد اب خو د کو زمانے کے سامنے مرد تسلےم کروانا تھا کےو نکہ اب اس دنےا مےں کو ئی بھی اےک اےسا شخص نہ تھا جسے اُس کی خوشی غمی سے واسطہ ہو ہسپتا ل کی نوکری سے اتنے پےسے مل جاتے جن سے اُس کے گزر بسر کے بعد بھی رقم بچ جا تی ،اس رقم کو استعمال کر نے کی بھی اُس کے پاس کو ئی جگہ نہ تھی ۔تھا تو بس صرف اےک خبط کہ وہ لوگو ں کو ےہ باور کروالے کہ وہ نامرد نہےں ہے ، کےونکہ ےہ احسا س اُسے اب بہت ستاتا تھا ، ہر آنے والے دن کے ساتھ اس مےں شدت آتی جا رہی تھی کہ وہ کچھ اےسا کر جا ئے جس کے بعد لوگ اُسے نامرد کہنے سے باز آجا ئےں مگر اب ےہ اتنا سہل نہ تھا اب کون اپنی لڑکی کا اُس کے ساتھ بےا ہ کرتا ؟ اور کےو ںکرتا ؟
وہ اب اےک اےسا پرےشر ککر بن چکا تھا جو کسی بھی وقت پھٹ سکتا تھا ، معاشرے کو اُس کے احسا سات ےا جذبات سے کیا واسطہ ؟ کس کے پاس اتنا وقت تھا کہ وہ ےہ جان سکتا ہمساےہ کس حالت مےں جی رہا ہے ۔وہ کئی بار محلے کے ©©”بڑوں“ سے اس حوالے سے بات کر چکا تھا کہ وہ بالکل ٹھےک ہے اُس کے حوالے سے ہونے والی باتےں سب افسا نے ہےں ، اےسے القابات سے نہ پُکارا جا ئے اُس کی دل آزاری ہو تی ہے ، لو گ اُس کی باتےں ہنسی مےں اُڑا دےتے ، ساری ساری رات وہ جا گتا رہتا منصوبے بنا تا ، ترکےبےں سوچتا ، مگر کو ئی راستہ سُجھا ئی نہ دےتا ۔
اتوار کا دن تھا ساری رات جا گنے کے بعد سوجھی ہو ئی مو ٹی آنکھو ںکے ساتھ وہ چائے بنا رہا تھا ،جب اخبار والا غلطی سے اُس کے گھر اخبار پھےنک گےا ۔اخبار پڑھے اےک مدت ہو گئی تھی ، کبھی وہ روزانہ اخبار پڑھا کرتا تھا ،اتوار کی اتوار انگلش اخبار بھی لےتا ، جسے سارا ہفتہ لغت کی مدد سے پڑھتا ، لےکن اب تو ےہ باتےں بے معنی ہو چکی تھےں ، اُسے تو بس خود کو ثا بت کرنا تھا ، زندگی کا کو ئی اور مقصد نہےں بچاتھا ۔اخبار کو سرسری سا دےکھتے ہو ئے اےک خبر نے اُس کو چو نکا دےا ، گوےا اُسے راہ دےکھا ئی دےنے لگی ۔
سائرن بجا تی پو لےس کی گا ڑےا ں اُس کے گھر کی طرف دوڑ رہی تھےں ، کچھ محلے دار گھر کے باہر جمع تھے ،لو گ چہ مگو ئےا ں کر رہے تھے، کسی کو ےقےن نہےں آرہا تھا لو گ ےہ کہتے ہو ئے خود بھی پھےکے پڑ رہے تھے کہ نامرد بابو نے اےک عورت سے جنسی زےادتی کی ہے ، سب بے خبر تھے پو لےس کو اطلا ع کس نے دی ؟ وہ عورت کون تھی؟ جس سے زےا دتی ہو ئی کو ئی کچھ نہےں جانتا تھا ،پو لےس آئی اُسے پکڑکر لے گئی ، باوردی چوڑے شا نوں والے سنتری نے اےک بڑا سا تا لا اُس کے دروازے پرلگا دےا ۔
