نظریۂ سازش کی اوٹ میں چھپتی قوم نظریۂ سازش کی اوٹ میں چھپتی قوم

تحریر: وقاص افضل
تین گلیاں چھوڑ کر نکڑ والا مکان آج بھی سنسان ہے، اُس بے آباد گھر کے بارے میں بچپن میں اتنی کہانیاں سنیں کہ بیس، بائیس برس گزرنے کے باوجود بھی تنہا گلی سے گزرتے خوف محسوس ہوتا ہے۔ آسیب زدہ مکان کے بارے میں مشہور تھا کہ آدھی رات کے وقت سر کٹا انسان وہاں سے نکل کر گلیوں میں مٹرگشت کرتا ہے۔ اسی لیے گھر فروخت ہوسکا نہ کرایے دار آئے، قبضہ مافیا کی خواہشات کی تکمیل میں بھی یہی کہانیاں حائل رہیں۔ بچپن اور لڑکپن میں انہی دو باتوں پر زیادہ غور و فکر کرتے رہے کہ وہ بغیر سر والا آدمی کون ہے؟ اور ڈبلیو ڈبلیو ایف کی ریسلنگ حقیقی ہوتی ہے یا نہیں؟ خیر یہ دونوں سوال ہنوز جواب طلب ہیں اور ان کے بارے میں متضاد آراء بھی موجود
ہیں۔
عمر کچھ پختہ ہوئی تو معلوم ہوا کہ ایسی باتوں کے لیے conspiracy theories یعنی سازشی نظریات کی اصطلاح موجود ہے۔ عموماً یہ میدان سیاست میں وقوع پذیر ہونے والے اُن واقعات کے حوالے سے استعمال کی جاتی ہے، جن کی درپردہ حقیقت معلوم نہ کی جاسکے اور متضاد موقف موجود ہوں۔ ماضی میں صدر کینیڈی کے قتل اور سانحۂ نائن الیون کو لے کر ایسی بہت سی کہانیاں وجود میں آئیں۔ مسلمانوں کے زوال کے اسباب پر ہونے والی بیشتر تحقیق بھی انہی سازشی نظریات کے گرد گھومتی نظر آتی ہیں۔
کہیں کہیں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ نظریۂ سازش کا سہارا لے کر کارروائیوں کا آغاز سب سے پہلے سی آئی اے نے کیا، کیوںکہ امریکی آئین تب تک جارحیت کی نفی کرتا ہے، جب تک اُس کے مفادات کو کوئی دوسرا ملک نقصان نہ پہنچائے، اس لیے رائج موقف یہ ہے کہ امریکا کو جہاں کارروائی مطلوب ہو، وہ وہاں پہلے ایسے حالات پیدا کرتا ہے، جن سے اس کی دخل اندازی کا
جواز نکالا جاسکے، لیکن امریکی ایجنسی کے ساتھ منسوب باتوں سے قبل بھی اقوام عالم نے محاذ آرائی کے لیے اس کا استعمال کیا ہے۔ درحقیقت جب سے انسان ہے تب سے نظریۂ سازش موجود ہے۔ بے نظیر بھٹو کے ہم سے بچھڑنے والے واقعے سے متعلق بھی ایسی بہت سی کہانیاں زیر گردش ہیں۔ اہم قومی و بین الاقوامی واقعات کے حوالے سے ایسی باتیں اور اُن کے درپردہ سازشوں کے حوالے سے کہانیوں کا جنم لینا لازمی سا امر لگتا ہے اور کوئی اتنی اچنبھے کی بات بھی نہیں سمجھی جاتی، لیکن ہمارے ہاں یونین کونسل کے انتخابات سے ہی نظریۂ سازش کی باتیں شروع ہوجاتی ہیں اور جنرل کونسلر کے ہارنے میں بھی اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ نظر آتا ہے۔ ایسی ایسی منطق پیش کی جاتی ہے کہ سامع کے سکتے میں آنے کے قوی امکانات ہوتے ہیں۔
ایک جاننے والے انکل یونین کونسل کے الیکشن سے ٹکٹ لینے کی جہد کا آغاز کرتے ہیں اور لاہور چیمبر آف کامرس کے انتخابات سے ہوتے ہوئے قومی اسمبلی تک جاپہنچتے ہیں، ہر طرف سے یکساں انکار ہونے کے درپردہ بھی اُنہیں نادیدہ قوتیں ہی نظر آتی ہیں۔
ہماری کرکٹ ٹیم خواہ آٹھویں نمبر پر کیوں نہ ہو نویں پر سرکنے سے بچانے کے لیے پھونک پھونک کے قدم رکھنے پڑتے ہوں، پھر بھی دوسرے، تیسرے درجے پر براجمان ٹیم سے ہار جائے تو سازشی نظریات کے پیروکار طرح طرح کی باتیں شروع کردیتے ہیں کہ میچ فکس تھا، کھلاڑی تو کجا حکومت وقت بھی ملوث ہے۔ ایسے ہی کبھی نچلے نمبرز پر ہوتے ہوئے جیتنا شروع کردے تو بھی یہی سمجھا جائے گا کہ یہ کامیابیاں بھی کسی خفیہ معاہدے کی مرہون منت ہیں۔ آج کل بھی سننے میں آرہا ہے کہ لاہو ر والا ٹی ٹوئنٹی بھی عوام کی توجہ نیب ریفرنسز سے ہٹانے کے لیے کروایا جارہا ہے۔ مان لیتے ہیں کہ ہماری سیاست میں کرکٹ ڈپلومیسی کی بازگشت بھی سنائی دیتی ہے مگر صاحب! موجودہ حالات میں تو ہم ڈپلومیسی کے ذریعے اپنی کرکٹ بچارہے ہیں، ایسے میں کرکٹ کو سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرنا مشکل سا امر لگتا ہے۔
عوام کا سازشی نظریات پر بات کرنا ایسا معیوب فعل بھی نہیں، نجی محفلوں میں ایسی چہ میگوئیاں ہوتی ہی ہیں، لیکن مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب ان نظریات کا سہارا لے کر اہم مناصب پر فائز لوگ اپنے فرائض منصبی میں پہلوتہی برتتے ہوئے خواہش قلبی کے حصول کے لیے سازشی کہانیاں تشکیل دیتے ہیں۔ سیاست دانوں کے ایسے بیانات تیقن کی فضا میں دراڑیں ڈالتے اور غیر ضروری تشکیک کو جنم دیتے ہیں، عوام میں پراگندگی بڑھنے کی وجہ سے وہ یہ سوچنے میں حق بجانب ہوتے ہیں کہ جب تمام اہم امور کے درپردہ بڑی قوتیں اور طاقتیں موجود ہیں تو پھر ہمارے ووٹ اور حصول حقوق کی جدوجہد سب بے معنی ہوئے۔ یہ فکر ہی عوام کا مورال کم کرنے کا سبب بنتی ہے، جس سے بے چینی، اضطراب اور شکوک و شبہات کے سائے ہر شے پر گہرے ہونے لگتے ہیں۔ تمام شعبۂ زندگی سے وابستہ عوام و خواص کا اپنی ناکامیوں کا ملبہ سازشی عناصر پر ڈالنے کی وجہ سے اب تو ڈر لگتا ہے کہ اُس وقت سے جب اسکول و کالج کے طالب علم بھی اپنی خراب کارکردگی کا سبب نادیدہ قوتوں کو ٹھہرائیں گے اور امتحانات میں کم نمبرز کے تانے بانے امریکا سے جوڑیں گے۔
اس بے چینی کی صورت حال میں سونے پر سہاگے کا کام علم و دانش کے حوالے سے معتبر شخصیات کی باتیں بھی کرتی ہیں۔ جب نامور لکھاری بھی اشارے کنایوں میں باتیں کرنے لگتے ہیں تو سازشی نظریات کو تقویت ملتی ہے، آندریں حالات میں تو جس کی باتوں میں شک کے سائے زیادہ گہرے ہوں جو نادیدہ قوتوں کی موجودگی کو زیادہ اچھے سے بیا ن کرلے، اُس کا کاروبار چل نکلتا ہے، ہاں ایک دو دھمکی آمیز فون کالز اور لفافوں کی پیشکش کا ذکر بھی وقفے وقفے سے کرتے رہیں تو کامیابی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ ضروری ہے کہ ہمیں من حیث القوم نظریہ سازش کی اوٹ میں چھپنے سے گریز کرنا چاہیے۔ ہر ناکامی کو سازشی نـظریات کے کھاتے میں ڈال کر خود کو معصوم سمجھنے والی عادت اب ختم کرنا ہوگی، کیونکہ قدآور شخصیات کی ایسی باتوں سے نوجوان نسل پراگندگی کا شکار ہوتی ہے، اُن میں مایوسی اور نظام پر عدم اعتماد بڑھتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

دوہرا معیار (عامر محمود بٹ)

یہ تو واضح ہے کہ پنجاب لینڈ ریکارڈ اتھارٹی اس وقت پنجاب کے سب سے …