پٹواری سے جان چھڑانا ممکن نہیں

پٹوار خانہ……عامر محمود بٹ

برصغیر میں سرکاری سطح پر زمینوں کے انتظام وانصرام کی تاریخ شیر شاہ سوری سے لے کر اکبراعظم اور برطانوی راج سے لے کر پنجاب میں موجودہ کمپیوٹرائزیشن تک پھیلی ہوئی ہے۔ پٹوار کا نظام ہے کیا اور آخر اس نظام میں ایسی کیا خرابی اور خوبی ہے کہ حکومتیں اسے تبدیل بھی کرنا چاہتی ہیں اور ایسا کر بھی نہیں پاتیں .پٹواری سے جان چھڑانا اس لیے بھی ممکن نہیں کہ پاکستان کے پٹوار سسٹم میں آج بھی لٹھے کے کپڑے کے ایک ٹکڑے کے ذریعے زمین کی نشاندہی کا قدیم نظام رائج ہے۔ شجرہ کہلائے جانے والے لٹھے کے اس کپڑے کے ذریعے پاکستان کے اکثر علاقوں میں زمینوں کا حساب کتاب رکھا جاتا ہے۔ آج کے جدید دور میں اس نظام کی موجودگی کی کئی وجوہات ہیں جن میں سرفہرست بدعنوانی ہے۔سات سال قبل پنجاب کے اکثر علاقوں میں زمینوں کے ریکارڈ کو کمپیوٹرائزڈ کر دیا گیا ہے لیکن کوئی کمپیوٹر آپریٹر یہ نہیں بتا سکتا کہ کون سا رقبہ زمین پر کس جگہ پر واقع ہے،کون سا خسرہ نمبر کہاں پر ہے،اس کا محل وقوع کیا ہے۔اس کی نشاندہی شجرے کے ذریعے صرف پٹواری ہی کر سکتا ہے.کمپیوٹر صرف یہی بتا سکتا ہے کوئی شخص کتنے رقبے کا مالک ہے، خسرہ، کھیوٹ اور کھتونی نمبر کیا ہے لیکن زمین پر اس کا نقشہ صرف اس نظام کے بادشاہ پٹورای کو ہی معلوم ہوتا ہے. ان مصدقہ معلومات کا حصول پٹواری کی خدمت کیے بغیر ممکن نہیں اس لیے پٹواری سے جان چھڑانا بھی ممکن نہیں. قابل ذکر بات یہ ہے کہ بڑی سی بڑی اور مشکل سے مشکل ذمہ داری بھی ہو ریونیو سٹاف اس کو سرانجام کر کے دیکھاتا ہے تاہم محکمہ مال کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ لاہور میں تعینات ایک پٹواری نے بتایا کہ تحصیل دار سمیت اعلیٰ سرکاری افسروں کی طرف سے اُن سے غیر سرکاری مطالبات کیے جاتے ہیں جن کو پورا کرنے کے لیے اُن کے پاس لوگوں سے زمینوں کی نشاندہی اور انتقلات کے اندراج کرنے کے لیے پیسے لینے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے۔ اور یہ رقم بظاہر سرکاری خزانے میں جمع نہیں ہونا ہوتی۔یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ مختلف حلقوں میں تعیناتی کے لیے سفارش اور بولیاں لگائی جاتی ہیں اور جو پٹواری صاحبان سیاسی اثرورسوخ کے علاوہ افسروں کے غیر ضروری مطالبات تسلیم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اُنہیں اُن حلقوں میں تعینات کیا جاتا ہے جہاں پر زمین کی خریدوفروخت کا کام سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ پٹوار خانے سے زمین کی نشاندہی کروانے کے بعد ریکارڈ آفس سے زمین کی نقل حاصل کرنا بھی آسان کام نہیں۔ یہاں پر بھی زمین کی نقل حاصل کرنے کے لیے نظرانہ دیا جاتا ہے۔ زمینوں کی نشاندہی اور ملکیت کے بارے میں پٹواریوں کے فیصلوں سے متعلق لاکھوں مقدمات کئی کئی سال سے عدالتوں میں زیر سماعت ہیں جس کے سدباب کے لیے تحریک انصاف کی حکومت پنجاب کے محکمہ ریوینو میں اصلاحات کرنا چاہتی ہے.
پنجاب کے محکمہ ریوینو میں اصلاحات کے لیے بنائی گئی خصوصی کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں صوبے میں قیامِ پاکستان سے قائم زمینوں اور ریونیو کے نظام، جسے عرف عام میں پٹوار کا نظام کہا جاتا ہے، کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے بعد دوبارہ سے فعال بنایا جا رہا ہے۔اس نظام کو شہباز شریف کی حکومت میں ختم کر کے اس کی جگہ زمینوں اور ریونیو کا کمپیوٹرائزڈ نظام مرحلہ وار لایا جا رہا تھا لیکن کچھ عرصے سے اس پر پیشرفت نہیں ہو رہی تھی۔تاہم اب موجودہ حکومت پچھلے دور حکومت میں شروع کیے گئے کمپیوٹرائزیشن کے نظام کو ہم مزید بڑھانا چاہتے ہیں۔ اس لیے ہماری کوشش ہے کہ پہلے اسے ضلعی سطح پر، پھر تحصیل اور پھر یونین کونسل کی سطح تک اس نظام کو لے جائیں۔ کچھ عرصہ پہلے محکمہ ریونیو کی جانب سے جو سفارش کی گئی ہے اس کے مطابق وہ پٹواری نظام کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ صوبہ پنجاب میں اس وقت ہزاروں کی تعداد میں پٹواریوں کی آسامیاں خالی ہیں کیونکہ کچھ عرصہ پہلے ان آسامیوں پر نئی بھرتیاں ختم کر دی گئی تھیں۔پنجاب کے وزیر قانون راجہ بشارت کہتے ہیں اب وہ نئی بھرتیاں کریں گے اور یہ پہلے پٹوار کلچر سے اس طرح مختلف ہو گا کہ تمام ریکارڈ کو کمپیوٹرائزڈ کرنے کے ساتھ ساتھ نئے بھرتی ہونے والے پٹواریوں کو جدید آلات دیے جائیں گے تاکہ وہ بھی اپنے پاس آن لائن ریکارڈ رکھ سکیں۔اس کے علاوہ گرداوری کا نظام بھی ختم ہو گیا تھا حکومت اسے بھی بحال کر رہی ہے۔ جس سے محکمے کے لوگ اور پٹواری موقع پر جا کر ریکارڈ بنائیں گے اور گرداوری ہر چار سال بعد کی جاتی تھی،اب ہر سال ہوگی، اس سے یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ مالک کون ہے، کس جگہ پر کس کا قبضہ ہے، فصل کون سے اور کتنی لگی ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس سب سے ریونیو کا بہت بڑا ریکارڈ برقرار کیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ نمبرداری نظام بھی بحال کیا جا رہا ہے۔اس سب کا مقصد یہ ہے کہ حکومت پہلے سے موجود سسٹم کو بحال کرنا چاہتی ہے.۔اس سسٹم کی بحالی سے محکمہ ریونیو کے معاملات بہتر ہوں گے اور اگر کسی کو پٹواری سے اعتراض ہوگا تو وہ مالک اس کے فیصلے کے خلاف درخواست بھی دے سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

پاکستان کے کم عمر ترین تن ساز، مسٹر پاکستان کا اعزاز،B-LEGEND جم کے 25 سالہ احسن سہیل نے اپنے نام کرلیا، دیکھئے رپورٹ

پاکستان کے کم عمر ترین تن ساز ، مسٹر پاکستان کا اعزاز ، B-LEGEND جم …