ہیلسنکی(مانیٹرنگ ڈیسک/میڈیا92نیوز) فن لیند: کئی عشروں سے ہم ذیابیطس یا شوگر کے مرض کو ٹائپ ون یا ٹائپ ٹو ذیابیطس میں تقسیم کرتے آرہے ہیں لیکن ماہرین نے ذیابیطس کی مزید ذیلی اقسام دریافت کی ہیں جس سے اس مرض کے علاج میں بہت مدد مل سکے گی۔
ٹائپ ون ذیابیطس ایک خود امنیاتی (آٹو اِمیون) مرض ہے جس میں لبلبہ انسولین نہیں بنا پاتا جبکہ ٹائپ ٹو ذیابیطس میں جسم انسولین سے مزاحم ہوجاتا ہے۔
اب سویڈن اور فِن لینڈ کے ماہرین نے ٹائپ ٹو ذیابیطس کی مزید چار ذیلی اقسام دریافت کی ہیں۔ لیونڈ یونیورسٹی سے وابستہ ان ماہرین نے خیال ظاہر کیا ہے کہ اس سے ذیابیطس کی عالمی وبا کو قابو کرنے میں مدد ملے گی اور مریضوں کے مرض کے لحاظ سے ذیابیطس کے علاج کی راہ ہموار ہوسکے گی۔
ذیابیطس کی نئی درجہ بندی کے تحت ٹائپ ون ذیابیطس کو ’شدید خود امنیاتی ذیابیطس‘ یا ’severe autoimmune diabetes‘ کا نام دیا گیا ہے جبکہ ٹائپ ٹو کو چار زمروں میں تقسیم کیا گیا ہے جن میں سے دو شدید اور دو درمیانے درجے کے امراض ہیں۔ پہلی یعنی انسولین کی شدید کمی والی ذیابیطس ان لوگوں میں ہوتی ہے جن کے خون میں شکر کی زائد مقدار ہو، لبلبہ کم انسولین بناتا ہو اور انسولین مزاحمت یا ریزسٹینس درمیانے درجے کی ہو۔
دوسری قسم کو انسولین سے شدید مزاحمت والی ذیابیطس کا نام دیا گیا ہے جس میں مریض موٹاپے کا شکار ہوتا ہے اور اس کا جسم انسولین سے شدید مزاحمت رکھتا ہے۔ اس کیفیت میں جسمانی خلیات انسولین کو بھرپور انداز میں استعمال نہیں کرتے اور اس سے خون میں شکر بڑھتی جاتی ہے۔
نئی درجہ بندی کے تحت ذیابیطس کو ان پانچ درجوں میں رکھا جائے گا:
کلسٹر اول
اس قسم میں شدید خود امنیاتی یا سیویئر آٹوامیون ڈائبٹیز شامل ہے جس کا پہلا نام ’ٹائپ ون‘ ذیابیطس تھا۔ یہ جسم کے قدرتی دفاعی نظام کے تحت ازخود پیدا ہوتی ہے اور لبلبہ انسولین بنانا بند کردیتا ہے۔ عموماً بچپن میں ہی اس کا حملہ ہوتا ہے لیکن آثار جوانی میں ظاہر ہوتے ہیں اور عمر بھر انسولین انجیکشن کی ضرورت پیش آتی ہے۔
کلسٹر دوم
یہ انسولین کی شدید کمی کی کیفیت ہے جسے ’انسولین ڈیفی شنٹ ڈائبٹیز‘ کہتے ہیں۔ نوعمر افراد میں اسے غلطی سے ٹائپ ون ذیابیطس سمجھ لیا جاتا ہے جبکہ ان کا امنیاتی نظام بہترین ہوتا ہے۔ اصل میں یہ ٹائپ ٹو ذیابیطس ہی کی ایک قسم ہے۔ اس میں مریض کا وزن ٹھیک ہوتا ہے، خون میں شکر زیادہ ہوتی ہے، جسم کم انسولین بناتا ہے اور انسولین سے مزاحمت درمیانے درجے کی ہوتی ہے۔
کلسٹر سوم
اس کیفیت میں جسم انسولین سے شدید مزاحمت دکھاتا ہے جس میں موٹاپا بھی شامل ہے۔
کلسٹر چہارم
چوتھی قسم درمیانے درجے کے موٹاپے کی ذیابیطس ہے جس کا مریض فربہی (موٹاپے) کا شکار ہوتا ہے لیکن یہ مرض کم شدت کا ہوتا ہے۔ اس کا حملہ کم عمری میں ہوتا ہے۔
کلسٹر پنجم
سب سے زیادہ آبادی اسی مرض کی شکار ہے۔ ذیابیطس کے 40 فیصد مریض اس کے شکار ہیں جسے عمر رسیدگی سے وابستہ درمیانے درجے کی ذیابیطس کہا جاتا ہے۔
اس تحقیق کی تفصیلات ریسرچ جرنل ’دی لینسٹ: ڈائبٹیز اینڈ اینڈوکرائنولوجی‘ میں شائع ہوئی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مطالعے میں 14 ہزار سے زائد مریضوں کا جائزہ لیا گیا۔ ماہرین کے مطابق اس سے ذیابیطس کو سمجھنے اور اس کے علاج میں بہت مدد ملے گی۔