اسلام آباد:(بیوروچیف میڈیا 92نیوز)صوبہ پنجاب کے علاقے قصور جھوٹ قرارمیں ریپ کے بعد قتل کی جانے والی معصوم بچی زینب پر سپریم کورٹ کی جانب سے لیے گئے ازخود نوٹس کیس میں ڈاکٹر شاہد مسعود کے ٹی وی پروگرام میں کیے گئے دعوؤں اور انکشافات کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی کمیٹی نے اپنی رپورٹ عدالت عظمیٰ میں جمع کرادی، جس میں دعوؤں کو جھوٹ قرار دے دیا گیا۔
ڈاکٹر شاہد مسعود کے دعوؤں کی تصدیق کے لیے بنائی گئی تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرا دی، رپورٹ کے اہم مندرجات کے مطابق ڈاکٹر شاہد مسعود کے تمام انکشافات کی تصدیق نہیں ہوئی، کمیٹی کی رپورٹ میں ڈاکٹر شاہد مسعود کے زینب قتل پر کیے گئے 18 انکشافات اور تحقیقاتی رپورٹنگ کو مسترد کر دیا گیا۔
ذرائع کے مطابق سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ میں ملزم عمران علی کے عالمی مافیا کے رکن ہونے کا الزام ثابت نہیں ہوا، اور نہ ہی ملزم کی سیاسی وابستگی کا ثبوت ملا۔
رپورٹ کے مطابق ملزم کے 37 بینک اکاونٹس کے الزامات ثابت نہیں ہوئے، اس کے علاوہ قصور میں وائلنٹ چائلڈ پورنوگرافی کے ثبوت بھی نہیں ملے۔رپورٹ میں کہا گیا کہ ملزم کے وی سی پی گروہ کے متحرک رکن ہونے کے الزامات بے بنیاد ہے جبکہ عمران علی کو بیرون ملک سے رقم وصول ہونے کی تحقیقاتی خبر کا کوئی بھی حصہ ڈاکٹر شاہد مسعود ثابت نہ کر سکے۔
رپورٹ کے مطابق یہ ثبوت بھی نہیں ملے کہ کوئی ملزم کو ذہنی مریض ثابت کرنا چاہتا ہے، سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں بتایا گیا کہ ملزم غریب ہے، عمران علی کے پاس کروڑوں روپے کی رقم کا کوئی ثبوت نہیں، ملزم کے بااثر شخصیت سے روابط کا بھی کوئی ثبوت نہیں۔ذرائع کا کہنا تھا کہ رپورٹ کے مطابق شاہد مسعود ملزم کو وفاقی وزیر کا تعاون حاصل ہونے کے شواہد بھی فراہم نہیں کر سکے جبکہ ملزم عمران علی کو پولیس حراست میں مارنے کے الزامات ثابت نہیں ہوئے۔
رپورٹ میں یہ واضح بھی کیا گیا کہ یہ بھی ثابت نہیں ہوا کہ جرم سے قبل ملزم نے زینب کی تصویر بنائی اور اسے ویب سائٹ پر اپ لوڈ کیا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ ڈاکٹر شاہد مسعود اپنے انکشافات کے شواہد پیش کرنے میں مکمل
طور پر ناکام ہوئے۔
خیال رہے کہ 28 جنوری 2018 کو سپریم کورٹ میں زینب قتل از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ٹی وی اینکر ڈاکٹر شاہد مسعود کے دعوے کی تحقیقات کے لیے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) بشیر احمد میمن کی سربراہی میں نئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی ) بنانے کی ہدایت کرتے ہوئے حکم دیا تھا کہ ڈاکٹر شاہد مسعود نئی جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہو کر ملزم عمران کے 37 بینک اکاؤنٹس سے متعلق ثبوت فراہم کریں۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے حکم دیا تھا کہ محمد ادریس کی سربراہی میں جے آئی ٹی صرف زینب قتل کیس کی تحقیقاتی کرے گی جبکہ ڈی جی ایف آئی اے کی سربراہی میں بنائی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم ڈاکٹر شاہد مسعود کے الزامات کی تحقیقات کرے گی۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے زینب قتل کیس میں گرفتار ملزم عمران کے 37 بینک اکاؤنٹس کا دعویٰ کرنے والے سینئر اینکر پرسن ڈاکٹر شاہد مسعود سمیت صحافتی تنظیموں آل پاکستان نیوز پیپز ایسوسی ایشن (اے پی این ایس)، پاکستان براڈ کاسٹر ایسوسی ایشن (پی بی اے) کے عہدیداروں، سینئر صحافیوں اور میڈیا ہاوسز کے مالکان کو بھی عدالت میں طلب کیا تھا۔
یاد رہے کہ گزشتہ دنوں ڈاکٹر شاہد مسعود کی جانب سے اپنے پروگرام میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ زینب قتل کیس میں پکڑا گیا ملزم عمران کوئی معمولی آدمی نہیں بلکہ اس کے 37 بینک اکاؤنٹس ہیں اور وہ ایک بین الاقوامی گروہ کا کارندہ ہے اور اس گروہ میں مبینہ طور پر پنجاب کے ایک وزیر بھی شامل ہیں۔