راولپنڈی:(بیوروچیف میڈیا92نیوز)سابق سینیٹر اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما نہال ہاشمی کو توہینِ عدالت کیس میں ایک ماہ سزا پوری ہونے کے بعد رہا کردیا گیا۔
اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا نمائندوں سے بات کرتے ہوئے نہال ہاشمی نے کہا کہ ان کے ساتھ ظلم کی انتہا کی گئی اور سزا کے دن ہی اس کے خلاف اپیل دائر کی گئی لیکن سزا کا ایک ماہ مکمل ہونے کے باوجود اس پر سماعت نہیں ہوئی۔
نہال ہاشمی نے کہا کہ وہ اللہ سے ڈرنے والوں اورپاکستان کی عزت کرنے والوں سے بات کریں گے اور ان کی بات کسی منافق اور پاکستان کو اپنے مفاد میں استعمال کرنے والوں کو نہیں سنی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ’آج میرے رب نے مجھے عزت دار بنا دیا لیکن کس کو کیا بنا دیا اس کا فیصلہ قوم کرے گی‘۔
سابق سینیٹر نے سوال کیا کہ ملک میں انصاف کا بول بالا کیا گیا ہے یا پھر انہیں انتقام کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
لیگی رہنما نے قومی احتساب بیورو (نیب) کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے پاکستان کا سب سے کرپٹ ادارہ قرار دے دیا۔
انہوں نے کہا جیلوں میں 70 برس کی عمر کے اوپن ہارٹ سرجری والے اور نیب کے شکار زدہ لوگ قید ہیں۔
نہال ہاشمی نے کہا کہ اگر نیب کے ڈائریکٹران اور اسسٹنٹ ڈائریکٹران کے گھروں پر چھاپہ مارا جائے تو ملک کی آدھی دولت وہاں سے مل جائے گی۔سابق سینیٹر نے کہا کہ پاکستان ان لوگوں کے لیے نہیں بتایا گیا تھا جو اس وقت یہاں پر عیش کر رہے ہیں۔
جب ان سے ججز کو عبرت کا نشان بنانے کے حوالے سے ان کے بیان پر سوال کیا گیا کہ کیا آپ اپنے اس بیان پر شرمندہ ہیں تو انہوں نے کہا کہ ’شرمندہ وہ ہوتا ہے جو دو نمبر ہوتا ہے‘۔
نہال ہاشمی کی رہائی کے موقع پر انہیں لینے کے لیے مسلم لیگ (ن) کا کوئی اہم رہنما موجود نہیں تھا تاہم لیگی کارکنان کی بڑی تعداد اس موقع پر موجود تھی۔
کارکنان نے سابق سینیٹر کا پھول کی پتیوں سے استقبال کیا اور ان کے حق میں نعرے بازی بھی کی۔
نہال ہاشمی کی دھمکی آمیز تقریر
یاد رہے کہ گزشتہ برس مئی میں ایک ویڈیو منظر عام پر آئی تھی جس میں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر نہال ہاشمی نے اپنی جذباتی تقریر میں دھمکی دی تھی کہ پاکستان کے منتخب وزیراعظم سے حساب مانگنے والوں کے لیے زمین تنگ کردی جائے
وزیراعظم نواز شریف نے لیگی رہنما نہال ہاشمی کے متنازع بیان کا نوٹس لیتے ہوئے انہیں اسلام آباد طلب کرلیا تھا اور ساتھ ہی نہال ہاشمی کے خلاف پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی پرانضباطی کارروائی کاحکم بھی دیا تھا۔
بعدِ ازاں گزشتہ برس 31 مئی 2017 کو مسلم لیگ (ن) کے صدر نواز شریف کی جانب سے نہال ہاشمی کی بنیادی پارٹی رکنیت بھی معطل کردی گئی تھی۔
وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات مریم اونگزیب نے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ نہال ہاشمی سے سینیٹ کی رکنیت سے بھی استعفیٰ طلب کیا تھا۔
نہال ہاشمی نے پارٹی کی رکنیت سے محروم ہونے کے بعد سینیٹ کی نشست سے بھی استعفیٰ دےت دیا تھا تاہم چیئرمین سینیٹ رضا ربانی کی جانب سے نہال ہاشمی کا استعفیٰ منظور نہیں کیا گیا تھا کہ جبکہ انہیں بحیثیت سینیٹر کام جاری رکھنے کی رولنگ دی گئی تھی۔
بعدِ ازاں مسلم لیگ (ن) کی انضباطی کمیٹی نے نہال ہاشمی کو طلب کرنے کا فیصلہ کیا تھا تاکہ ان سے عدلیہ کو ‘دھمکیاں دینے’ اور پارٹی قواعد کی مبینہ خلاف ورزی کی وضاحت طلب کی جاسکے۔
بعدِازاں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے نہال ہاشمی کی دھمکی آمیز تقریر کا ازخود نوٹس لیا اور معاملہ پاناما کیس عملدرآمد بینچ کے پاس بھیجنے کی ہدایت کی تھی۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس دوست محمد خان اور جسٹس مقبول باقر پر مشتمل سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ اس نوٹس پر سماعت کر رہا تھا جس میں گزشتہ سماعت کے دوران نہال ہاشمی نے غیر مشروط معافی بھی مانگی تھی۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما نہال ہاشمی کو دھمکی آمیز تقریر اور توہینِ عدالت کیس میں ایک ماہ قید اور 50 ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی۔
2 فروری کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سپریم کورٹ کی جانب سے نا اہل قرار دیئے جانے والے مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر نہال ہاشمی کی سینیٹ نشست خالی قرار دینے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا تھا۔
سابق سینیٹر نہال ہاشمی کو دل کی تکلیف کے باعث اڈیالہ جیل راولپنڈی کے ہسپتال منتقل کردیا گیا تھا بعدِ ازاں انہیں طبی معائنے کے بعد دوبارہ جیل منتقل کردیا گیا تھا۔