قومیں سب ہی زندہ ہوتی ہیں مگر دیکھا یہ جاتا ہے زندہ رہتی کون سی قومیں ہیں ۔قوموں کوبقا ءاور زندگی کیلئے اپنی اجتماعی اصلاح کرنی پڑتی ہے ۔حکومت ہو یا عوام ،فرد ہو یا قوم،بھیک یا محتاجی زندہ قوموںکو زیب نہیں دیتی۔ہمارے ملک میں مسلمان تو بہت ہیں مگر اسلام بہت کم نظر آتا ہے ۔اکثر لوگ شارٹ کٹ مار کر راتوں رات امیر بننے کے چکر میں کبھی ڈبل شاہ کے ہاتھوں لٹتے ہیں ،تو کبھی کسی بھی حد کو پار کرنے پر تل جاتے ہیں اور اپنی عزت تک بھی داو¾ پر لگا دیتے ہیں ۔ہماری معاشرتی خرابیوں میں بیٹی والوں سے جہیز کا مطالبہ کرنے جیسی بے شرم روایت بھی ایک بہت بڑی لعنت ہے جس میں مال و زر کے حریص بڑی ستم ظریفی سے جہیز کی بھیک مانگتے ہیں اور رشتہ منہ مانگے جہیز کی شرط پر طے کرتے ہیں یا سب کچھ طے ہو جانے کے بعد جب شادی کے کارڈ بھی چھپ جاتے ہیں تو اپنے مطالبات سامنے رکھ دیتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کے معیار دوہرے ہوتے ہیں ۔اگر ان کی اپنی بیٹی کی شادی ہو تو وہ توقع کرتے ہیںکہ ان سے کم سے کم جہیز کا مطالبہ کیا جائے اور وہ جہیز کو کھلے عام لعن طعن کرتے نظر آتے ہیں مگر بات جب اپنے بیٹے کی ہو تو دوسروں کی بیٹی کو اپنی نہیں سمجھتے اور جہیز کے حوالے سے پینالٹی سٹروک لگانے کے چکر میں رہتے ہیں اور بڑے خوبصورت اور منجھے ہوئے انداز میں اپنے مطالبات کمال ڈھٹائی سے گنوا دیتے ہیں ۔آج کسی بھی پاکستانی کی فیس بک پوسٹس اور سٹیٹس دیکھ لیں تو یوں لگتا ہے جیسے آپ اخلاقی لحاظ سے دنیا کی کسی بہترین شخصیت کو ملاحظہ فرما رہے ہیں مگر عملی طور پر اکثریت کا کردار اس کے برعکس ہوتا ہے ۔ شخصیت کی یہ خوبصورتی کسی دکھلاوے اور دھوکے سے کم نہیں ہوتی۔یہ سب جانتے ہیں کہ غیر اسلامی اور غیر انسانی رسم و رواج کی وجہ سے غریب غربا ءکی نیک پاک اور پارسا بیٹیا ں بے بسی اور بے چار گی کی چادر اوڑھے حجاب وحیاءکی چار دیواری میں بیٹھے بیٹھے بوڑھی ہو جاتی ہیں ۔والدین اپنی غربت افلاس اور غیر اسلامی رسم و رواج کی وجہ سے ان کی شادی خانہ آبادی کا اہتمام نہیں کر سکتے اور اگر کوئی بغیر جہیز کے اپنی بیٹی کے ہاتھ پیلے کر بھی دے تو یہ خانہ آبادی نہیں بلکہ خانہ بربادی بن جاتی ہے ۔اپنے بیگانے اور بیگانے دیوانے ہو جاتے ہیں ۔بہو کے گھر آتے ہی سسرال والے طرح طرح کے طعنے دینے لگتے ہیں ۔زمانہ جاہلیت والا ظلم تو یہ
ہے کہ ہم سب جانتے ہیں جو والدین اپنی نازوں میں پلی لاڈلی بیٹی جو ان کی غم گسار تھی کوغیر کے سپرد کر دیا ۔جس کے بغیر وہ پل بھر بھی چین سے نہ بیٹھتے تھے اب ہمیشہ ہمیشہ کیلئے رخصت کر دیا ،جو کچھ بن پڑا بطور جہیز دیدیا ۔اپنی مفلسی اور غربت کے باعث نمود و نمائش اور فرسودہ رسومات سے پرہیز کیا مگر سسرال تو درکنار اپنے پرائے سب باتیں بناتے ہیں ۔غریب کی غربت اور مفلسی کا مزاق اڑاتے اور طعنے دے دے کر والدین کا جگر چھلنی کرکے خوب ستاتے ہیں ۔ان ضمیر فروش اور بے غیرت لوگوں کی سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ نادار و مفلس والدین تو بڑی مشکل سے گزر اوقات کرتے ہیں ،حرام کھاتے نہیں اور حلال میسر نہیں آتا ۔ادھر انہیں جوان بیٹی کی ڈھلتی ہوئی جوانی پر ترس آتا تھا ۔ایسے حالات میں مرتے کیا نہ کرتے ۔خیریہ پیشہ وروں کی بات ہے جو ہر اچھی بات کو برا سمجھتے ہیں ان کی سنی ان سنی کر دینا تو
ممکن ہے مگر بیٹی کے سسرال والے پہلے بیٹی بیٹی کرتے نہیں تھکتے تھے اور اب بہو بیٹی اور معمولی جہیز دیکھ کر نہ بہو نہ بیٹی ۔
دیکھتے دیکھتے ہی کتنے بدل جاتے ہیں لوگ
ایک ہی چہر ے پر کئی چہر ے سجا لیتے ہیں لوگ
اللہ جانے میں انجان ہوں یا نادان ہوں یا ہمارے بڑے بڑے مذہبی رہنما اور افسران بالا غریب پرور غریبوں کے غمگسار گمراہ ہو گئے ہیں ۔
ماحولیاتی ،فضائی و خلائی آلودگی اور جہالت تو انہیں پریشان کرتی ہے مگر دکھی دلوں کی آہ سنائی نہیں دیتی ۔اس سے بڑی غفلت اور جہالت اور کیا ہو گی کہ ہماری معصوم اور بے زبان بیٹیاںاپنے ارمانوں سمیت بوڑھی ہو رہی ہیں مگر کرتا دھرتا لوگ اس معاملے میں اندھے ،بہرے ،گونگے اور پتھر دل بن کر تماشہ دیکھ رہے ہیں ۔ہم یورپ اور عرب ممالک کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے حالانکہ وہاں تو جہیز کا کوئی تصور تک نہیں مگر ہم نے
”Jahez is a Trade”کو اپنا سلوگن بنا لیا ہے ۔جہیز کی بھیک مانگ کر غریب کی جمع پونجی اجاڑ کر ہمیں شرم تو نہیں آتی کہ ماں باپ نے اپنی جوانی کی توانائیاں اپنی بیٹی پر صرف کر کے اسے پال پوس کر جوان کیا ،تعلیم و تربیت دی اور اس کے بدلے خود بڑھاپاکمایا ۔ والدین کو اس عظیم پروش کا صلہ دینے کی بجائے مال و زر کی بھیک مانگنے سے بھی گریز نہیں کرتے ۔اگر بیٹی کے والدین صاحب استطاعت ہےں تو پھر بھی ان کی مرضی و منشاءپر چھوڑ دینا چاہیے اور پورے ٹبر کے ساتھ کشکول لے کر سوال نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس رذیل او ر ذلیل روایت کو ختم کرنے میں اپنے حصے کا دیا جلانا چاہیے ۔ہمارے سرورِ کائنات ،فخر موجودات ﷺ کی عملی مثال موجود ہے کہ آپ ﷺ نے اپنی پیاری بیٹی حضرت فاطمہ ؓ اکی شادی کتنی سادگی سے انجام دی اور پھر جہیز میں کیا دیا سا ری دنیا جانتی ہے ۔آپ ﷺ نے جہیزجمع کرنے کی بجائے وقت پراپنی بیٹی کی شادی کر دی۔ عرب کی طرح ہمارے معاشرے میں بھی دلہے کو چاہیے کہ محنت کر کے شریک حیات اور اپنی ضروریا ت زندگی کا انتظام خود کرے اور سسرال والے اپنی حیثیت کے مطابق اگر کچھ دے سکیں تو
ٹھیک وگرنہ جہیز کو بھیگ جان کر اس کا بائیکاٹ کریں بیٹی والوں کو بھی جہیز کی بجائے اسلام کے مطابق جائیداد میں اس کا پورا حق اسے دینا چاہیے۔
محمد فیصل افضل
[email protected]