ماجد بٹ سے
بھارت نے کشمیریوں پر ظلم وستم جاری رکھنے کے لئے مقبوضہ کشمیر میں اپنی فوج کی کئی مزید بٹالنیز بھیج دی ہیں، قطعہ کشمیر، ارض فلسطین اور میانمار کا علاقہ دھرتی کا مظلوم ترین گوشے ہیں۔ کشمیر جنت نظیر کی سرزمین پر بھارت کی دردندہ صفت فوجیں اتنی بڑی تعداد میں نہتے کشمیریوں کی نسل کشی پرمامورہیں کہ اس کی کوئی مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ اس چھوٹی سے آبادی کو لاکھوں درندوں نے گھیررکھا ہے۔ ان کی آبادیاں ویران، کھیت کھلیان اور باغات تباہ حال، عفت ساب بیٹیوں کی عصمتیں پامال اور پوری وادی جنت نظیر آج منتقل کی تصویر بنی ہوئی ہے۔ ایک لاکھ کے قریب لوگ جانوں کے نذرانے پیش کرچکے ہیں اس سے کہیں زیادہ زخمی اورمعذور ہوچکے ہیں۔ ہزاروں مردوخواتین لاپتہ ہیں اور ہزاروں بھارتی عفویت خانوں میں ظلم وستم برداشت کررہے ہیں۔ ہزاروں دختران کشمیر کی عفت پامال کی جاچکی ہے۔
پاکستان اس مسئلے کا اہم فریق ہے۔ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے، تحریک حریت کشمیر پاکستان کے ساتھ اپنی وابستگی کا پرملا اظہارکرتی ہے۔ افسوس پاکستانی حکومتیں یکے بعد دیگرے مسلسل قوم وملت کے اس اہم ترین مسئلے کونہ صرف پس پشت ڈالنے کی مرتکب ہوئی ہیں بلکہ اذیت پسند کشمیریوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کی مجرم بھی ہیں۔
بھارت نے کشمیری حریت پسندوں کی پاکستان کے ساتھ بے پناہ محبت کے باعث مقبوضہ کشمیر کو زبردست وحشت وبربریت کا شکار بنایا ہوا ہے اور سینکڑوں نوجوانوں کو شہید کردیاہے اور مسلمانوں کی بستیوں کو نذ ر آتش کرنے کی شرمناک مہم جاری ہے اور کشمیری عوام کو سرد موسم میں کھلے آسمان تلے تختہ ستم بنایاجارہاہے اور مسلمانوں کا بلا روک ٹوک قتل عام ہورہا ہے۔ کئی لاکھ بھارتی فوج اس وقت جس انداز سے وادی مقبوضہ کشمیر پر مظالم ڈھارہی ہے، اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی اوریہ عجب بات ہے کہ بھارت کشمیریوں پر جس شدت اور بے رحمی سے حملہ آور ہے۔ تحریک حریت کشمیر اتنی ہی تیزی اور توانائی سے آگے بڑھ رہی ہے اور اب تو مقبوضہ کشمیر کے ہرحصہ میں عوامی جنگ کا آغاز ہوچکا ہے۔ کشمیری عوام سروں پر کفن باندھ کرمیدان کا رزار میں نکل چکے ہیں۔ یہ بات بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ مقبوضہ کشمیر اور کشمیری عوام صدیوں سے اسلام کے مضبوط رشتوں سے منسلک چلے آرہے ہیں۔ پاکستان اور کشمیر کا ایک دوسرے کے ساتھ جسم وجاں کاسارشتہ ہے۔ پھر یہ بھی ایک بہت اہم بات ہے کہ قوموں کے حقوق کے بارے میں پاکستان نے ہمیشہ بین الاقوامی طور پر مسلمہ اصولوں کے مطابق موقف اختیار کیا ہے اور اس سلسلہ میں بڑی سے بڑی طاقت کی ناراضگی کی بھی پرواہ نہیںکی۔
کشمیری عوام کی جدوجہد کی تائید وحمایت پاکستان کا دینی، اخلاقی اور اصولی فرض ہے۔ جموں وکشمیر کے ساتھ پاکستانی عوام کی قلبی وابستگی کی بنیادیں اس قدر گہری ہیں کہ زمان ومکان کی تبدیلیاں کبھی اس پر اثر انداز نہ ہوسکیں۔ یہی حال جموں وکشمیر کے عوام کا ہے جنہوں نے اپنی آزادی کی تحریک کو وہ بنیادوں پر استوار کیا ۔اول،اسلام سے تعلق اور دوم پاکستان سے محبت!۔
بھارت کے ظلم وستم کے باعث سرحد پار کرکے پاکستان آنے والے بے خانماں کشمیریوں کی امداد بند کردی گئی۔ مسلمانان کشمیر کے لئے یہ سخت مایوسی کے دن ہوتے اگر کشمیر کی حریت پسند قوم بالخصوص نوجوانوں کو امید اور حوصلے کا پیغام دینے کیلئے بعض جماعتیں بالخصوص جماعت اسلامی پاکستان قاضی حسین احمد نے کشمیرکی حریت پسند قوم کو حوصلے اور یقین کا پیغام دینے کیلئے اعلان کیا کہ5فروری1990ء کا دن کشمیری قوم سے یکجہتی کے دن کے طور پر منایاجائے گا۔ حکومت کی مخالفت کے باوجودعوام نے یہ دن بڑے جوش وخروش سے منایا۔ اس سے کشمیر کے کونے کونے میں جہاد کا غلغلہ ہوگیا۔یہ جہاد ہی کی برکت تھی کہ مسئلہ کشمیر جو ایک بھولی بسری داستان بن چکا تھا ایک بار پھر بین الاقوامی ایشو بن گیا۔ کنٹرول لائن کے اس پار بھی ایسے نوجوان نکلے جنہوں نے ڈیڑھ دوصدی کی مجبور ومحکوم مسلمان قوم کو آزادی کی راہ دکھائی ۔ کوئی سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ اس بجھی ہوئی خاکستر میں چھپی چنگاریاں یوں شعلہ فشانی شروع کردیں گی۔ افغان جہاد سے دنیا بھر میں مسلمانوں کا مورال بلند ہونے کے ساتھ ساتھ کشمیری قوم میں بھی آزادی کی تڑپ اور عزم وحوصلہ پیداہوا۔ افغان جہاد نسبتاً آسان تھا، پاکستان اور ایران نے افغانستان کی آدھی آبادی کو پناہ دے رکھی تھی اور ساری دنیا کی سیاسی ،سفارتی ،مالی اور جدید ترین اسلحے کی امداد ان کو حاصل تھی۔ کشمیریوں کے لئے تو جہاد جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ بھارت، امریکا اور اسرائیل مل کر ان کے خلاف سازشوں کے جال بن رہے تھے۔ دنیا بھر میںان کا واحد وکیل پاکستان بھی ان کا ساتھ دینے کے لئے تیار نظر نہ آتاتھا ۔ وہ15ہزار فٹ کے بلندوبالا برفانی پہاڑی سلسلے اور بھارت کی سفاک سپاہ کے مورچوں کے بیچوں بیچ سفر کرتے تھے۔ آفرین ہے ان کے حوصلوں کو پھر بھی وہ سر بکف ہوکر نکلتے اوربھارتی استعمار کا مقابلہ کرتے رہے۔