عمر خالد سے
پاکستان میں ہر سال 5فروری کو اہل کشمیر سے یکجہتی کا دن منایا جاتا ہے۔ اس دن پاکستان کی مختلف سیاسی جماعتیں اورخود حکومت بھی کشمیری عوام تحریک آزادی سے اظہار یکجہتی کیلئے جلسے جلوس، ریلیاں اور دوسرے پروگرام تشکیل دیتی ہیں۔ اخبارات میں مضامین شائع ہوتے ہیں۔ ٹی وی پر دستاویزی فلمیں دکھائی جاتی ہیں۔ یہ دن پہلی مرتبہ 5فروری1990ء کو منایا گیاتھا۔ اس سے صرف چند ماہ پہلے مقبوضہ جموں وکشمیر کے مسلمانوں کی آزادی کیلئے جدوجہد شروع ہوئی تھی۔ یہ وہ ان تھے کہ جب مجاہدین آزادی جوق درجوق کنٹرول لائن سے آزاد خطے میں داخل ہورہے تھے۔ یہ وہ نوجوان تھے جو ہندوستانی فوج کے آئے دن کے مظالم سے تنگ آچکے تھے ۔ انہیں پاکستان کے حکمرانوں سے ابھی مایوسی ہی ملی۔ بے نظیر بھٹو نے1988ء میں حکومت سنبھالتے ہی بھارت سے دوستی کی پینگیں بڑھائیں اور کشمیریوں کے قاتل راجیوگاندھی کا اسلام آباد میں زبردست استقبال کیا اور اس کے راستے سے کشمیر نام کے بورڈ تک ہٹوادیے گئے تاکہ اس کے ماتھے پر ہل نہ آجائے۔ بھارت کے ظلم وستم کے باعث سرحد پار کرکے پاکستان آنے والے بے خانماں کشمیریوں کی امداد بند کردی گئی۔ مسلمانان کشمیر کے لئے یہ سخت مایوسی کے دن ہوتے اگر کشمیر کی حریت پسند قوم بالخصوص نوجوانوں کو امید اور حوصلے کا پیغام دینے کیلئے بعض جماعتیں بالخصوص جماعت اسلامی پاکستان قاضی حسین احمد نے کشمیرکی حریت پسند قوم کو حوصلے اور یقین کا پیغام دینے کیلئے اعلان کیا کہ5فروری1990ء کا دن کشمیری قوم سے یکجہتی کے دن کے طور پر منایاجائے گا۔ حکومت کی مخالفت کے باوجودعوام نے یہ دن بڑے جوش وخروش سے منایا۔ اس سے کشمیر کے کونے کونے میں جہاد کا غلغلہ ہوگیا۔یہ جہاد ہی کی برکت تھی کہ مسئلہ کشمیر جو ایک بھولی بسری داستان بن چکا تھا ایک بار پھر بین الاقوامی ایشو بن گیا۔ کنٹرول لائن کے اس پار بھی ایسے نوجوان نکلے جنہوں نے ڈیڑھ دوصدی کی مجبور ومحکوم مسلمان قوم کو آزادی کی راہ دکھائی ۔ کوئی سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ اس بجھی ہوئی خاکستر میں چھپی چنگاریاں یوں شعلہ فشانی شروع کردیں گی۔ افغان جہاد سے دنیا بھر میں مسلمانوں کا مورال بلند ہونے کے ساتھ ساتھ کشمیری قوم میں بھی آزادی کی تڑپ اور عزم وحوصلہ پیداہوا۔ افغان جہاد نسبتاً آسان تھا، پاکستان اور ایران نے افغانستان کی آدھی آبادی کو پناہ دے رکھی تھی اور ساری دنیا کی سیاسی ،سفارتی ،مالی اور جدید ترین اسلحے کی امداد ان کو حاصل تھی۔ کشمیریوں کے لئے تو جہاد جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ بھارت، امریکا اور اسرائیل مل کر ان کے خلاف سازشوں کے جال بن رہے تھے۔ دنیا بھر میںان کا واحد وکیل پاکستان بھی ان کا ساتھ دینے کے لئے تیار نظر نہ آتاتھا ۔ وہ15ہزار فٹ کے بلندوبالا برفانی پہاڑی سلسلے اور بھارت کی سفاک سپاہ کے مورچوں کے بیچوں بیچ سفر کرتے تھے۔ آفرین ہے ان کے حوصلوں کو پھر بھی وہ سر بکف ہوکر نکلتے اوربھارتی استعمار کا مقابلہ کرتے رہے۔
5فروری… پاکستان قوم سے ایک درد مندانہ اپیل تھی کہ وہ مظلوم اور مقہور قوم جس کا ساتھ دینے کے لئے کوئی تیار نہیں، پاکستان کے عوام اس کی حمایت اور پشتی بانی کے لئے سڑکوں پر نکلیں۔ یہ پکار ایسی پر تاثیر ثابت ہوئی کہ ہر شہر اور ہر قریے سے لبیک کی صدائیں آنے لگیں۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہ پکارا آن کی آن میں پوری پاکستانی قوم کے اس طرح ایک آواز ہوجانے کا سبب بن جائے گی۔ پاکستانی عوام کے دلوں میں کشمیریوں کے لئے محبت اور ہمدردی ہمیشہ سے موجزن رہی ہے۔ تاہم حکومت اور سیاسی قائدین بسا اوقات اپنے مفادات سے وابستہ رہتے ہیں۔لیکن 5فروری کی آنچ تیز ہوتی رہی، عوامی جوش وخروش بڑھتا رہا۔ سیاسی لیڈر بھی اس کی محسوس کیے بغیر نہ رہے۔ پاکستان کی سیاسی پارٹیاں اور بعد میں ہر آنے والی حکومت اس دن کو منانے لگی اور آج بھی یہ عمل جاری وساری ہے۔5 فروری آج ایک قومی دن بن چکا ہے۔ اب 5فروری کو سرکاری سطح پر چھٹی ہوتی ہے۔ پاکستانی عوام اپنی حکومتوں کی بے حسی کے باوجود اہل کشمیر کو اپنی محبت ،اخلاص اووفا کا یقین دلاتے ہیں۔اس موقع پر پاکستان اور آزاد کشمیر میں سیاسی اور دینی جماعتوں کی طرف سے پاکستان کو کشمیر کے ساتھ ملانے والے راستوں پر یکجہتی کی علامت کے طورپر انسانی زنجیر بنائی جاتی ہے۔